اب اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی سیاست کا فیصلہ کن موڑ آہی گیا ہے تو غلط نہ ہو گا، اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ”پاکستان ایک ری پبلک بنانا“ ہے یا پھر وہ ایک آئین پر کھڑا خودمختار ملک ہے، اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا اور ملک اور آئین سب سے پہلے ہے، سیاست اور پارٹی وفاداریاں بعد میں۔۔۔
ساری ترجیحات پاکستان اور اس کے آئین کے لئے ہی ذاتی مفاد پر ملکی مفاد کو اہمیت دینے کا موڑ آچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے نے ملکی سیاست میں ایک بھونچال کھڑا کردیا ہے۔ عدلیہ کو ڈرانے دھمکانے اور اپنے اشارے پر نچوانے کے لئے سپریم کورٹ میں رسوائے زمانہ ”لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کا فارمولہ بھی نہ صرف ناکام رہا بلکہ اپنے سہولت کار ججوں کے بے نقابی اور ان کے منافقانہ کردار پر بہت سارے سوالات کھڑے کرنے کا باعث بنا اور اس ایک فیصلے کے ذریعے حکومت اس کے ادارے اور ملک کی تیرا سیاسی جماعتیں ایک بند گلی میں داخل ہو گئی ہیں اور ان کے پاس سوائے سپریم کورٹ کے اس تاریخ ساز فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے اور کوئی آپشن ہی باقی نہیں بچا اور فیصلے پر عمل درآمد ان سیاسی جماعتوں کی سیاسی موت ہے جسے وہ کسی بھی صورت میں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں گیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کابینہ نے سپریم کے اس تاریخ ساز فیصلے کو مسترد کردیا ہے یعنی دوسرے معنوں میں خود حکومت ریاست اور آئین کے مدمقابل آگئی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نا ماننے کی صورت میں وزیر اعظم سمیت تمام وزراءنے جو حلف اٹھائے ہیں وہ سب اس کے خلاف ورزی کے ساتھ توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں اور لندن میں بیٹھا ایک عادی مجرم عدالت سے بھگوڑا ذہنی مریض کہتا ہے کہ تین ججوں کا یہ فیصلہ نہیں بلکہ خود ان کے اپنے خلاف چارج شیٹ ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ اقتدار کے لئے کتنے مرے جارہے ہیں ان کے نزدیک ملک آئین اور ملکی عوام کی کوئی اہمیت نہیں۔ انہیں صرف اور صرف اقتدار چاہئے اور جو کوئی بھی ان کی خواہشات کی راہ میں دیوار بنے گا وہ اسی طرح سے بغاوت کرکے ان کے احکامات کو قدموں کی ٹھوکر بناتے رہیں گے مگر ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے ہیں کہ وہ خود بھی تباہی و بربادی کی جانب بڑھ رہے ہیں اور اپنے ساتھ ساتھ ملک اور قوم کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے اس وقت پاکستان بیدار عوام اپنی سپریم کورٹ اور آئین کی پشت پر کھڑی ہے اور وہ کسی بھی طور پر ملک پر مسلط چوروں اور ڈاکوﺅں کے ان تباہ کن ارادوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے بلکہ اپنے احتجاجی تحریکوں کے ذریعے نہ صرف حکمرانوں کو مجبور کریں گے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پنجاب میں انتخابات کروانے کے انتظامات کریں بلکہ اسے شفاف بھی بنائیں گرچہ حکمران پارٹیاں گیدڑ بھبکیوں سے مسلسل کام لے رہی ہے مگر اندرون خانہ ان سب سے ہوا نکل چکی ہے سب کو اپنی سیاسی اور حقیقی موت صاف دکھائی دے رہی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کا یہ تاریخ ساز فیصلہ ان کے لئے کسی بھی طرح سے نوشتہ دیوار سے کم نہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران پارٹی کے ایک کے بعد ایک اجلاس ہو رہے ہیں اور وہ ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے اس تاریخ ساز فیصلے کے شکل میں جو موت ان کی جانب بڑھ رہی ہے اس سے خود کو کس طرح سے بچائیں کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے ان تین ججوں کو ڈرانے دھمکانے اور بلیک میل کرنے کے تمام حربے استعمال کرچکے ہیں یہاں تک سپریم کورٹ میں موجود اپنے سہولت کاروں کو استعمال کرنے کی صورت میں انہیں بہت ہی بری طرح سے بے نقاب بھی کر چکے۔۔۔
لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے سربراہی میں تین رکنی بنچ نے انتہائی دلیری اور بردباری کے علاوہ ثابت قدمی سے تمام تر مخالفتوں اور سازشوں کے باوجود فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق دے کر سب کو سرپرائز دیا اور حکمراں پارٹی کو بند گلی میں لا کر مشکل میں ڈال دیا اب اسٹیبلشمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک اور آئین کی پاسداری اور اس کی سلامتی کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بلا کسی حیل و حجت کے عمل درامد کروائے اسی میں پاکستان کی سلامتی اس کی فلاح اور خود مختاری مضمر ہے۔
