اس وقت پاکستان کی اندرونی اور بیرونی ساری کی ساری سیاست ہی اس مصیبت مارے ”ایکسٹینشن“ کے گرد گھوم رہی ہے، اب ایکسٹینشن دینا اور ایکسٹینشن لینا ایک بہت بڑی طاقت کی صورت اختیار کر گیا ہے، ہر ایک کی طاقت ہر ایک کی ضرورت کا انحصار اب ایکسٹینشن بن گیا ہے، دینے اور لینے والے دونوں کی نیتوں کا ایک طرح سے امتحان ہے، دونوں کو ایک دوسرے کی نیت پر شک ہے، دونوں طرف اعتماد کا فقدان ہے، دونوں طرف اجارہ داری کی جنگ ہے، دونوں اپنے آپ کو حاکم بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور اب یہ معاملہ اتنی سنگین صورت اختیار کر گیا ہے کہ اس کا حل ملک میں رہ کر نہیں نکاجا جا سکتا، اسی لئے اس کھیل کے اہم پلیئر (کھلاڑی) ملک سے باہر چلے گئے ہیں، اب یہ معاملہ کسی غیر ملکی کے ضامن بنے نہیں حل ہو سکے، یہ حال ہے ایک خودمختار ملک کا۔۔۔؟ یہ آزادی کے دعویدار ملک کا۔۔۔؟ اس طرح کی شرمناک صورتحال کا سامنا کسی تیسری دنیا کے پس ماندہ ملک کو بھی نہیں کرنا پڑا ہوگا، جس طرح کی صورتحال کا سامنا دنیا کے واحد ایٹمی پاور اسلامی ملک پاکستان کو کرنا پڑ رہا ہے، کسی مالیاتی ادارے یا کسی ترقیاتی ادارے کے سربراہ کی ایکسٹینشن کا معاملہ نہیں ہے، یہ ملک کے سب سے اہم ترین دفاعی ادارے کے سربراہ کی ایکسٹینشن کا معاملہ ہے جس کا فیصلہ ملک کے سیاستدان ملک کے اپنے حکمران نہیں کر پا رہے ہیں، انہیں اتنے اہم ترین معاملے کے لئے بھی مشرق وسطیٰ کے کسی ملک کے سربراہ کا سہارا لینا پڑ رہا ہے، اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ ایک پیج پر نہیں ہے، ویسے تو اپنی خودمختاری اور آزادی کے بڑے بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں، اپنی جمہوریت کی راگ الاپتے ہوئے ان کی زبان نہیں تھک پاتی۔۔۔ لیکن اتنے اہم ترین فیصلے بھی خود نہیں کرسکتے۔۔۔؟ آخر کیوں؟ کیونکہ ان کے اپنے کارنامے ان کے اپنے کرتوت اتنے زیادہ گھناﺅنے اور بدبودار ہیں کہ انہیں تو ہر وقت اپنے پکڑے جانے کا ڈھڑکا لگا رہتا ہے، اس لئے یہ اپنے تھانیدار اور اپنے جج لگانے کے اتنے زیادہ عادی ہو چکے ہیں کہ اس کے بغیر تو انہیں رات کو نیند بھی نہیں آتی۔۔۔ ایکسٹینشن دینے میں اس وقت انہیں اس لئے موت آرہی ہے اس لئے یہ اس وقت پریشان ہو رہے ہیں کہ اگر ابھی پانچ سال کے ایکسٹینشن کا نوٹی فکیشن جاری کر دیتے ہیں تو پھر 2029ءتک وہ اپنے عہدے پر قائم و دائم رہیں گے اور انہیں کسی حکومت کی کوئی پرواہ نہیں ہوں گی اس بات کی ضمانت کون دے گا؟ کہ ایکسٹینشن لینے کے بعد بھی وہ مسلم لیگ ن اور اس حکومت کے ساتھ اسی طرح سے چلتا رہے گا یعنی ان کے اشارے پر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو دیوار سے لگائے رکھے گا۔ عمران خان کے لئے اسی طرح سے موت کی علامت بنا رہے گا اور نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کا اپنا وعدہ پورا کرتے گا یہ وہ تحفظات اور خدشات ہیں جسے دور کیے بغیر یا پھر اس کی ضمانت کوئی دوسرا اسلامی ملک جب تک نہیں دے گا اس وقت تک ایکسٹینشن کا یہ معاملہ اسی طرح سے لٹکا رہے گا اور پاکستان کی سیاست غیر یقینی صورتحال میں مبتلا رہے گی اس سارے کھیل میں آصف علی زرداری اور ان کی پارٹی کا کوئی کردار نہیں ان کا تو پورے کا پورا ٹبر ہی اس وقت چین میں ہے جب کہ مسلم لیگ نون والے لندن میں جمع ہو رہے ہیں تاکہ امریکی صدر ٹرمپ سے بھی کسی طرح سے چوری چھپے کوئی ملاقات ہو جائے۔
وزیر اعظم شہباز شریف ایکسٹینشن کے متمنی کو ساتھ لے کر غیر ملکی دورے کررہے ہیں، وہ بھی لندن پہنچنے والے ہیں۔ پاکستان کی خودمختاری کا ایک عجیب تماشا ان فصلی بٹیرے سیاستدانوں نے اس وقت لگا رکھا ہے۔ کب انہیں ہوش آئے گا کہ کس طرح سے اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان لوگوں نے قائد اعظم کے پاکستان کو پوری دنیا میں ایک تماشا بنا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح کی صورتحال سے ہی دشمنوں کو موقع ملتا ہے اور ملک کی اپنی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
