وطن عزیز کو ایک خوفناک منصوبے کے تحت دوبارہ پرائی جنگ اور دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں جس کا ثبوت ایک طے شدہ شیڈول کے تحت ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کا اچانک بڑھ جانا ہے اور افغانستان و پاکستان کے تعلقات کو بھی خراب کرکے ایک دوسرے کے لئے آگ اور پانی بنانا ہے۔ اس طرح کی بدلتی ہوئی صورتحال امریکہ اور اس کی پاکستان پر مسلط بغل بچہ حکومت کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس آگ میں پاکستان کو دھکیلنے کی صورت میں کسی حد تک ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ جائے گا یعنی اس راہ پر چلنے کی حکومت کو قیمت ادا کردی جائے گی اور اس طرح کی سپورٹ پی ڈی ایم کی اس حکومت اور ان کے سہولت کاروں کے لئے بہت اہم ہے اور وہ بھی یہ ہی چاہتے ہیں۔ وہ کسی بھی لحاظ سے عمران خان اور ان کی پارٹی کو برسر اقتدار نہیں آنے دینا چاہتے، انہیں اقتدار میں آنے سے روکنے اور ان کی عوامی مقبولیت کو ختم کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ وہ عمران خان کو الیکشن کمیشن سے نااہل کروا سکتے ہیں ان کے خلاف جھوٹے سچے درجنوں مقدمات درج کروا کے ان میں ان کی گرفتاری اور عدالتوں سے سزا بھی کروا سکتے ہیں کیونکہ ملک کے سارے اداروں کا ریمورٹ کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے جو پس پردہ پاکستان پر 75 برسوں سے حکومت کرتے چلے آرہے ہیں اور سب سے بڑھ کر انہیں عمران خان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹانا انہیں ہمیشہ کے لئے خاموش کرنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ وہ پہلے ایک ناکام حملہ کروا چکے ہیں وہ دوسرا اور تیسرا حملہ بھی کرواسکتے ہیں لیکن عمران خان عوامی شعور کے جس جن کو بوتل سے نکال چکا ہے وہ پاکستانی حکمران اور ان کے سہولت کار کچھ بھی کر لیں اس شعور کے جن کو دوبارہ بوتل میں نہیں بند کرسکتے۔ ملکی عوام کے آگے ان کے حرام خور، بے ایمان، ملک دشمن سیاستدانوں سے زیادہ ان کے سہولت کار بہت ہی بُری طرح سے بے نقاب ہو چکے ہیں جن کا پھر سے ملکی عوام کے آگے ہیرو بننا یا پھر معتبر بننا اب ممکن نہیں رہا۔ ملکی عوام پر عمران خان کی جرات، ان کی بہادری سے یہ راز فاش ہوا کہ ”پاگل کو نہیں پاگل کی ماں“ کو مارو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہئے، ان حرام خور ملک دشمن سیاستدانوں کی آبیاری جو لوگ کرتے ہیں جو لوگ انہیں اقتدار تک پہنچاتے ہیں۔ وہی دراصل اس ملک اور اس کے رہنے والے 25 کروڑ عوام کے دشمن ہیں۔ آج جو بھی وطن عزیز میں کیا جارہا ہے اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت یا پی ڈی ایم نہیں ہے بلکہ وہ سہولت کار ہیں جنہیں عمران خان کبھی نیوٹرل اور کبھی میر جعفر اور میر صادق کے القابات سے پکارتے ہیں۔
ان ہی سہولت کاروں نے اقتدار کیک کی طرح سے پلیٹ میں رکھ کر ان چوروں اور لٹیروں کے سامنے پیش کیا، اگر وطن عزیز میں اسی طرح کی حکمرانی کرنی ہے تو پھر جمہوریت اور انتخابات کا ڈرامہ رچا کر کیوں ملکی عوام اور اقوام عالم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔ کیوں انتخابات پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں جو عناصر بھی اس لاقانونیت میں بالواسطہ یا براہ راست ملوث ہیں انہیں ملک کی اس بپھری ہوئی عوام کو نوشتہ دیوار سمجھ کر پڑھنا چاہئے کہ اب ملکی عوام بھنگ پی کر ماضی کی طرح سے سوئی ہوئی نہیں ہے بلکہ اب وہ پوری طرح سے بے دار ہو چکی ہے۔
اس وجہ سے وہ لوگ اپنے اس سازشی کھیل تماشے کو فوری طور پر روک دیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب ملکی عوام ترکی یا سری لنکا کے عوام کی طرح سے صبر کا پیمانہ توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں اور پھر وہ بھی وہی کریں جو ترکی عوام نے اپنے اداروں کے ساتھ کیا تھا۔ انہیں نشان عبرت بنا دیا تھا کیونکہ حالات اسی جانب چلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اقلیت طاقت کے نشے میں چُور ہو کر اکثریت پر ظلم ڈھانے سے باز نہیں آرہی ہے۔ ملک میں ریاست کے اندر کسی ریاست اس وقت اپنے پورے جوبن پر ہے اور وہ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے میں لگی ہوئی ہے۔ آخر میں پھر پاکستانی عوام کو عمران خان جیسے نڈر اور بہادر لیڈر کا احسان مند ہونا چاہئے جنہوں نے اپنی زندگی کی پرواہ کئے بغیر ملک دشمنوں کو بے نقاب کردیا ہے ان کے خلاف آواز اٹھانا ہی ملک کی سلامتی اور بقاءکی ضامن بن گیا ہے۔
