ضلع برنالہ مشرقی پنجاب کے سردار گورومکھ سنگھ لالی سے ہماری دعا سلام ہے۔یہ پنجابی زبان میں گراموفون ریکارڈ جمع کرنے میں بین الا قوامی شہرت کے حامل ہیں۔اِن کی معرفت مجھے سرحد پار پنجاب سے ایک بہت ہی اچھی خبر موصول ہوئی۔ بین ا لمذاہب ہم آہنگی کے لئے مثال بناتے ہوئے بخت گڑھ، ضلع برنالہ، مشرقی پنجاب کے ایک سکھ خاندان نے مسجد کے لئے ایک قطع زمین عطیہ کیا۔اسکے ساتھ مزید کئی ایک سکھ اور ہندو خاندانوں نے نقد اور دیگر طور پر معاونت کا اعلان کیا۔ فی الوقت بخت گڑھ میں مسلمانوں کے لئے محض قبرستان کی سہولت ہی میسر ہے۔یہاں قریب ترین مسجد 5 کلومیٹر دور چنگا گائوں میں ہے۔ مسجد بننے کے بعد گائوں کے15 مسلمان خاندانوں کو عبادت کے لئے دوسرے گائوں نہیں جانا پڑے گا۔ مسلمانوں کے مکانوں کے قریب ایک مسجد کی ضرورت کے لئے بخت گڑھ کے ایک مکین امن دیپ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا۔میری کل امن دیپ صاحب سے خود بات ہوئی۔انہوں نے بتایا :”
میں نے 8 مرلہ (250 مربع گز) زمین اس نیک مقصد کے لئے اپنے خاندان کی جانب سے عطیہ کی ہے۔اس انتقال کی رجسٹر ی ’ نورانی مسجد کے نام تحصیل دار کے دفتر میں کر دی گئی۔گا?ں کے مسلمان مسجد کا تعمیراتی نقشہ تےار کر رہے ہیں۔تعمیر کا خرچہ اندازاََ 12 لاکھ سے تجاوز کر جائے گا۔اِس میں گائوں کے سکھ اور ہندو خاندان بھی کچھ حصہ ڈالیں گے“گفتگو کے دوران علم ہوا کہ اس منصوبے کے روحِ رواں جناب امن دیپ صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جنہوں نے ایم اے ،بی ایڈ کر رکھا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا : گائوں میں ڈیرہ صاحب کے علاوہ دو عدد گردوارے ہیں لیکن مسجد کی کمی تھی اسی لئے وہ دوسرے گائوں کی مسجد میں جا کر اللہ کو سجدہ کرتے تھے۔ ان کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے میں اور میرے خاندان والوں نے مسلم بھائیوں کے لئے زمین عطیہ کی اور اس کی تعمیر میں حصہ بھی ڈالیں گے۔ہمارے مسلم بھائی موتی خان مسجد کی تعمیر کی نگرانی کریں گے“ ادہر جناب موتی خان کا کہنا ہے :” ہم سکھ خاندانوں اور بہت سے دوسروں کے احسان مند ہیں جو تعمیرِ مسجد کے کام میں مدد ے رہے ہیں۔ہم سب جگہوں پر اسی طرح کا بھائی چارا چاہتے ہیں۔یہ ہی صحیح امن و آشتی کا راستہ ہے۔پنجاب میں ایسی کئی ایک مثالیں ہیں جہاں سکھوں اور ہندووں نے اپنے گائوں دیہاتوں میں مسلمانوں کے لئے مساجد تعمیر کروانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
دسمبر 2019 میں درشن سنگھ صاحب کے خاندان نے ضلع موگا میں ”مچھیک “کے مقام پر مسجد کے لئے زمین عطیہ کی تھی۔اسی طرح فروری 2018 میں ضلع برنالہ میں موم نامی گائوں کے ہندوئوں نے 2 مرلہ زمین عطیہ کی جب کہ سکھ خاندانوں نے تعمیر کے لئے رقوم کا انتظام کیا “۔ امن دیپ صاحب نے کہا : ” سب سے پہلے آپ کا بہت شکریہ ! کہ ہماری اس چھوٹی سی کوشش کو پاکستان سے آپ نے سراہتے ہوئے مجھ سے بات کی۔ ہمارے گائوں میں 99 فی صد لوگ سکھ ہیں۔یہاں مسلمانوں کے15کے قریب گھر ہیں۔ ان کے پاس سجدہ کرنے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ہمارے یہاں پنجاب میں گولڈن ٹمپل ہے جو سکھوں کے لئے بہت ہی مقدس مقام ہے۔اس کی نیو/ بنیاد ایک مسلم فقیر نے رکھی تھی۔میں بھی اس روشن مثال پر عمل کر تے ہوئے مسجد بناناچاہتا ہوں۔ ہمارے گائوں کے جو مسلم ہیں وہ بہت اچھے لوگ ہیں وہ ہم سکھوں کے ساتھ مِل جل کر رہتے ہیں۔میں نے سوچا کہ اِن کے لئے بھی عبادت کرنے کے لئے کوئی باقاعدہ جگہ ہونا چاہےے۔ یہ سوچ کر میں نے اپنا 8 لاکھ روہے کا پلاٹ عطیہ کر دیا۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ پیسہ تو آتا جاتا رہتا ہے۔کسی کے پاس کم اور کسی کے پاس زیادہ ہو جاتا ہے۔کبھی بھی کسی آدمی کی قیمت یا اس کی جائیداد کو کبھی یاد نہیں رکھا جاتا بلکہ جو اس نے اپنی زندگی میں اچھے کام کئے ہیں ان کو ہی ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔
ہمارے گائوں میں رہنے والے مسلم بھائی گوردوارہ صاحب میں ہمارے دکھ سکھ میں ماتھا ٹیکنے جاتے ہیں۔مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اِن کے مَن میں بیگانگی کا احساس نہ ہو ! ان کی بھی کوئی اپنی سجدہ کرنے کی جگہ ہونا چاہےے۔ تو یہ سب میرے دل و دماغ میں چل رہا تھا اسی نے پھر مجھے فیصلہ کرنے میں مدد دی۔میں نے مسلم عمائدین سے مشورہ کیا۔وہ میرے اس ارادے کو س±ن کر بہت خوش ہوئے۔میں نے اس پلاٹ کی رجسٹری مسجد کے نام پر کر دی ہے۔میں اپنے اس فیصلے سے بہت مطمئن ہوں “۔ آج کے دور میں سرحد کی دونوں جانب، امن دیپ اور اس قسم کے بے لوث لوگوں کی بے حد ضرورت ہے۔دیکھیئے کہ وہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد حضرت میاں میر رحمة اللہ نے رکھی۔مذہب خواہ کوئی ہو پاکستان اور بھارت میں رہنے والے سب انسان ہی بستے ہیں۔مشرقی پنجاب کی بات ہو رہی ہے وہاں سکھ، ہندو، مسلمان اور دیگر مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں۔ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا سب سے بڑی انسانیت ہے۔پھر اگر کسی مذہب کی عبادت گاہ بنائی جائے تو گویا آپ نے قوم کے دل جیت کئے۔حضرت میاں میر رحمة اللہ نے جو روایت گولڈن ٹیمپل امرتسر کی صورت میں قائم کی تھی آج اس کی شبییہ ہمیں برنالہ کے گائوں بخت گڑھ میں نظر آتی ہے۔
