ملک اس وقت تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے ، انائی جنگ نے وطن عزیز کو اس تباہ کن صورتحال سے ہمکنار کردیا ہے جس کی نشاندہی عمران خان گاہے بگاہے قوم سے کرتے رہے ہیں، جب جب وہ ان کی نشاندہی کرتے رہے تب تب ان کا مذاق اس کے ذمہ وار اور ان کی سہولت کار میڈیا عمران خان کا اڑاتے رہے لیکن آج پاکستان کی پوری قوم نے دیکھ لیا کہ وطن عزیز کی صورتحال افریقہ کے تباہ کن ملکوں جیسی بن چکی ہے اور عوام گندم جیسی بنیادی اشیا کے حصول میں زندگی کی بازی ہار رہی ہے۔ ملک کی یہ تباہ کن اور برباد ترین صورتحال اس وقت عمران خان کے بیانیے کی پوری طرح سے نہ صرف تصدیق کررہی ہے بلکہ اس کی مارکیٹنگ بھی کررہی ہے اور یہ ہی صورتحال بربادی کے ذمہ داروں کی پوری طرح سے نشاندہی بھی کررہی ہے، اب بھی وقت ہے اگر انائی عینک کو اتار کر صورتحال کو کھلی آنکھوں سے دیکھا اور پرکھا جائے تو ملک کو تباہی کے اس گرداب سے نکالا جا سکتا ہے، ملک کو ایک درست سمت پر ڈالا جا سکتا ہے لیکن اس سب کے لئے ضروری ہے کہ ملک میں قانون کی بالادستی کا نہ صرف اعلان بلکہ عملی طور پر اس کا اطلاق بھی کردیا جائے جو جس کا کام ہے اسے اس کے اپنے کام پر لگا دیا جائے، کسی کو بھی دوسرے کے کام میں مداخلت اور جھانکنے کا موقع نہیں دینا چاہئے بلکہ اس طرح کے کرنے والوں کے خلاف ملکی قوانین کے تحت سخت سے سخت کارروائی کرنی چاہئے۔ اس طرح کے انقلابی اقدامات کئے جائیں تب جا کر ملک کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے، اس کے لئے تمام اسٹیل ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، خاص طور سے عدلیہ کو اپنی سپرمیسی اور اپنی آزادی اور خودمختاری نہ صرف ظاہر بلکہ ثابت کرنا ہوگی اور ہر کسی کو نہ صرف جواب دہ بنانا ہوگا بلکہ ہر کسی کو قانون کے تابع لانا ہوا۔
”مقدس گائے“ کے رسوائے زمانہ طریقہ کار کو دفن کرنا ہوگا، کسی کو بھی مقدس گائے قرار دے کر قانون اور انصاف سے بالاتر نہیں سمجھا جائے گا، اس طرح کے اقدامات سے ہی ملک تباہی سے نکل سکتا ہے اور یہ سب کچھ صرف پاکستان کی عدلیہ اور ان کے معزز جج ہی کرسکتے ہیں اگر وہ کرنا چاہیں اور انہیں پاکستان کی اس موجودہ صورتحال اور اس کے ذمہ داروں کا ادراک ہو تو۔۔۔
دنیا میں کوئی بھی کام نہ ممکن نہیں، ہر شے ممکن ہے، مگر ضرورت اس کے کرنے کی نیت اور حوصلے کی ہے، میں پھر بڑے زور دے کر یہ بات کررہا ہوں کہ پاکستان کی عدلیہ ہی اس ملک کو اس تباہ کن صورتحال سے نکال سکتی ہے، سیاستدان اور ملکی ادارے ہی پاکستان کے تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ قانون اور قانون ساز ادارے کو گھر کی لونڈی بنا کر اپنے خلاف 11 ارب روپے کی کرپشن اور لوٹ مار کے مقدمات کو ختم کروانے کا بھی عدلیہ کو ازخود نوٹس لینا چاہئے کیونکہ اس طرح کے غیر قانونی اقدامات کی وجہ سے ہی ملک کی سلامتی اس وقت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ ملک کو اپنی سلامتی کے لئے دوسروں کے آگے اب جھولی پھیلانا پڑ رہی ہے کہ وہ ان کی مدد کریں ورنہ وہ صفحہ ہستی سے ہی مٹنے جارہے ہیں، میں بڑے دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ رہا ہوں کہ پاکستان کی عدلیہ ہی ناک کے سیدھ پر چلنے کی ٹھان لے اور وہ صرف سیاستدانوں اور ادارے والوں کو بے رحمانہ احتساب شروع کروائے تو خدا کی قسم پاکستان کو آئی ایم ایف یا کسی بھی دوسرے ملک کے پاس بھیک مانگنے کی ضرورت یا نوبت ہی پیش نہیں آئے گی۔ ہمارے سیاستدانوں اور سرکاری ملازموں کے پاس لوٹا ہوا اتنا مال ہے کہ اگر وہ سارا مال قومی خزانے میں آجائے تو ملک کا ہر شخص کروڑ پتی نہیں تو کم از کم لکھ پتی تو ضرور بن جائے گا اور روپے کی قدر ڈالر کے برابر نہیں تو اس سے دس گنا کم بھی نہیں رہے گی۔ اس خواب کو حقیقت کا رنگ بھرنے یا پھر اس کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو ہی کچھ کرنا ہو گا۔ انہیں ہی اپنے لئے گئے حلف پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ اسی صورت میں ملک تباہی و بربادی کے دہانے سے نکل کر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ اس تمام تر صورتحال کے لئے ملک میں ایک شفاف الیکشن کروانے کی ضرورت ہے، جمہور کو خود ان کے ووٹوں کے ذریعے کامیاب ہونے والے حکمران چاہئے، ایسے حکمران جن کی ڈوریں انہیں اقتدار میں لانے والے ملکی عوام کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے جن سے ملکی عوام اپنے درپیش مسائل حل کروائیں ان کے ہاتھوں میں نہیں جو پیچھے بیٹھ کر حکمرانوں کو کٹھ پتلی کی طرح سے استعمال کرتے ہیں اور ریاست میں ریاست قائم کرکے خود کو ہی اصل حکمران ظاہر کرتے رہتے ہیں ان ناسوروں کا خاتمہ کئے بغیر ملک نہ تو ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ سالم رہ سکتا ہے۔ اس وجہ سے عدلیہ کو ہی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، یہ ہی پاکستان کی سلامتی اور اس کی ترقی کا واحد حل ہے۔۔۔
