سپریم کورٹ بمقابلہ حکومت قانون شکنی اور انصاف کے نظام کے خود قانون ساز ادارے کے ہاتھوں تذلیل کی اس سے بڑی مثال پوری دنیا کے جمہوری معاشروں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی جو مثال پاکستان کی موجودہ حکومت نے قائم کرلی ہے اور اس حکومت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت دنیا کی واحد جمہوریت ہے جو الیکشن سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ انتخابات جو ساری دنیا کی جمہوریتوں کے لئے زرخیز زمین کا کردار ادا کرتی ہے اسی سے جمہوریت کے پودے نمودار ہوتے ہیں اور پروان چڑھتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستانی جمہوریت نے الیکشن کے اس زرخیز زمین کو ہی بنجر بنا ڈالا جس سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سےہی جمہوریت کا لبادہ آمروں نے ہی پہن رکھا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ ہمیشہ لباس بدل بدل کر ہی آتے ہیں، کبھی ہرے، کبھی نیلے اور کبھی خاکی رنگ کے لباس میں آتے ہیں۔
موروثی سیاست بھی تو آمریت کی ہی ایک بدترین شکل ہے، بھٹو کے بعد اس کی بیٹی بے نظیر، اس کے بعد اس کا بیٹا بلاول، نواز شریف کے بعد اس کی بیٹی مریم صفدر اور شہباز شریف کے بعد اس کا بیٹا حمزہ شہباز اور ڈیزل کے بعد پیٹرول۔۔۔ موروثی سیاست کی شکل میں جمہوریت کے لبادے میں آمریت عرصہ دراز سے پاکستان میں حکمرانی کرتی رہی اور ملکی عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کے دوسرے ممالک بشمول اقوام متحدہ کو بے وقوف بناتی رہی مگر اب ان کے چہرے سے بھی پاکستان کی عدلیہ نے بالخصوص اور عمران خان کے بے باک سیاست نے بالعموم پردہ سرکاتے ہوئے ان کا اصل چہرہ پاکستانی عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے کہ کس طرح سے حکومت سپریم کورٹ کے کسی ایک بھی حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے مسلسل نافرمانی یعنی توہین عدالت کے مرتکب ہو رہی ہے اور ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ بھی اب عمران خان کی طرح سے بالکل تنہا ہو کر رہ گئی ہے، کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں کہ اپنی عدلیہ کی پشت پر کھڑا ہو جب کہ آئینی طور پر پاکستان کے تمام ادارے سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے پابند ہیں لیکن چونکہ پاکستان میں اب آئین نام کی کوئی شے وجود ہی نہیں رکھتی تو پھر کون کس کا حکم مانے گا۔ اب پاکستان میں جنگل کا قانون رائج ہو گیا ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور لاٹھی والے ہی اس بے لگام آئین شکن حکومت کی پشت پر کھڑی ہے اور وہی اس لنگڑی لولی حکومت اور اس کے دوسرے اداروں کو سپریم کورٹ سے نافرمانی پر نہ صرف اکسا رہے ہیں بلکہ انہیں تھپکیاں بھی دے رہے ہیں اور ان کے حوصلے بھی بلند کررہے ہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان کی اس موجودہ صورتحال سے بدقسمتی کے ساتھ اسی طرح کا پیغام جا رہا ہے مگر لگتا ہے کہ کسی کو بھی اس کی فکر یا پھر احساس نہیں۔ اس وقت ہر ادارہ اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہا ہے اور اس جنگ میں ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں بلکہ خود پاکستان کے آئین سے ہے اگر پاکستانی آئین قائم و دائم رہتا ہے تو اس پر حملہ آوروں کی موت ہوتی ہے اور اگر آئین پر حملہ آور کامیاب ہوتے ہیں تو پاکستان دنیا کا ایک جنگل بن جائے گا۔
عملی طور پر تو پاکستان جنگل بن چکا ہے صرف اس کا اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے، جس طرح سے اس کا سرکاری سطح پر اعلان کرنا باقی رہ گیا ہے۔ پاکستان کا اب قائم و دائم رہنا اور آگے بڑھنے کا مکمل طور پر دارومدار آئین کی بقاءاور اس کے مقدم ہونے یعنی پاکستان کے تمام اداروں کے اس کے تابع ہونے پر ہے۔ دوسرے معنوں میں قانون کی حکمرانی میں ہی پاکستان کی بقاءاور سلامتی مضمر ہے۔ اب پاکستان میں مقدس گائے کے تصور کو دفن کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہر کوئی قانون اور آئین کو ہی جواب دہ خیال کرے گا۔ تو یہ ملک باقی رہے گا، ورنہ بے آئین ملک کو بکھرنے کے لئے ہوا کا معمولی سا جھونکا ہی کافی ہوتا ہے اور اس وقت پاکستان پوری طرح سے بے آئین ہو چکا ہے۔ جنگل کا قانون رائج ہو چکا ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا بول بالا ہو رہا ہے اور پاکستان دنیا میں ”ری پبلک بنانا“ کے نام سے روز بروز شہرت پا رہا ہے۔
عدلیہ سے طاقت ور لووں کی ملاقاتیں بھی دنیا کے کسی مہذب معاشروں میں ممکن نہیں لیکن پاکستان میں طاقت ور لوگوں کی ملاقاتیں ججز سے کروائی جانے اور اس کے بعد اس کی خبریں چلوا کر عدلیہ کی شفافیت پر سوالات کھرے کروائے جارہے ہیں۔ یہ تمام تر علامتیں تباہی کی ہیں اس لئے خود سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس کو ہی آئین کے مطابق فیصلہ کرکے ملک سے بے آئینی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہونے کے تاثر کو غلط ثابت کرنے کی ضرورت ہے اسی میں پاکستان کی شناخت، اس کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔
