پاکستان میں ایک غیر یقینی کیفیت یا پھر صورتحال کا دور دورہ ہے یا پھر تا حکم ثانی اس کا قبضہ ہے، الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ یہ ایک اس طرح کا سوال ہے جس کا جواب نہ تو الیکشن میں حصہ لینے والوں کے پاس ہے اور نہ ہی الیکشن کروانے والوں کے پاس؟ اور نہ ہی اس پورے سسٹم پر کنٹرول رکھنے والوں کے پاس؟ کیونکہ پاکستان میں جہاں مہنگائی آسمان سے بات کررہی ہے وہی یہ ملک میں اعتماد اور یقین کی فقدان ہو گئی ہے، بلکہ سرے سے اعتماد کا تو خاتمہ ہی ہو چکا ہے کسی کو بھی اعتماد اب کسی سے بھی نہیں مل رہا ہے جس کی وجہسے صورتحال میں بے یقینی بڑی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
یہ افسانوی انداز کی اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی ضرورت مجھے اس لئے پیش آرہی ہے کہ ملک کے حالات ہی کچھ اس طرح بڑھ رہے کسی ایک بھی اتحاد میں ہم آہنگی نہیں مل رہی ہے، غیر فطری اتحاد ہے اور ایک دوسرے کو شک بھری نگاہوں سے دیکھا جا رہا ہے، پی ڈی ایم میں شامل ساری جماعتیں ایک دوسرے کو شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں اسی طرح سے ان کا یہ غیر فطری اتحاد اسٹیبلشمنٹ کو شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے اگر یہ کہا جائے کہ یہ سارے کے سارے ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ان سب کے اس دھوکہ بازی کے کھیل میں ریاست پاکستان اس کے 25 کروڑ عوام ان کے ادارے اور خود جمہوریت بری طرح سے پس رہی ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت ملک سسلین مافیا کے شکنجے میں چلا گیا ہے تو غلط نہ ہو گا، ہر کوئی اپنے مفاد کو ملک اور قوم پر مقدم خیال کرتے ہوئے اسی کے مطابق فیصلے کررہا ہے، پی ڈی ایم کو اسٹیبلشمنٹ پر اور خود اسٹیبلشمنٹ کو پی ڈی ایم پر ایک ٹکے کا بھی یقین اور بھروسہ نہیں، پی ڈی ایم اپنا نگراں وزیر اعظم لانا چاہتی ہے، اور اسٹیبلشمنٹ اپنا۔۔۔
ہر کسی کو شک ہے کہ جس طرح سے تین ماہ کے لئے پنجاب اور کے پی کے نگراں حکومتیں آئی تھی وہ الیکشن نہ کروانے کے باوجود تا حال چل رہی ہیں اسی لئے پی ڈی ایم کو یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ اگر وہ اپنی حکومت کو اس وقت ختم کرکے اپنے ہاتھ کاٹ دیں اور نگراں سیٹ اپ لے آئے اور وہ اگر اسی طرح سے لمبے سے لمبا ہو جائے تو پھر ان کا کیا بنے گا۔ اس لئے وہ نگراں سیٹ اپ بھی اب اپنا لا رہی ہے یعنی نگراں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ آرہی، مسلم لیگ ن اور آدھی پی پی ی اور جے یو آئی کی ہو گی تاکہ ان کا اطمینان برقرار رہے، یہ ہے پاکستان کی موجودہ صورتحال اور وہاں سے اعتماد کے پوری طرح سے غائب ہونے کا نتیجہ۔۔۔۔
کسی کو بھی اب کسی پر بھروسہ نہیں رہا، سب کا اگر کسی بات پر جملہ اتفاق اور یقین ہے تو وہ صرف اور صرف عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی کا اپنا مشترکہ دشمن ہونے پر ہے اور اس دشمن نے ہی انہیں اس غیر فطری اتحاد کرنے پر مجبور کر رکا ہے، ورنہ وہ تو ایک دوسرے کی شکلیں بھی دیکھنے کے روادار نہیں۔ وہ جو دن رات اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں دیا کرتے تھے، کس طرح سے اسی اسٹیبلشمنٹ کے گن گاتےہوئے ان کی زبان نہیں تھک پاتی، اسے کتہے ہیں وقت پڑنے پر گدھے کو باپ بنایا۔۔۔ یہ سارے کا سارا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے کہ کس طرح سے انہوں نے پاکستانی سیاست میں بن بادلوں کے برسات کروادی، کس طرح سے اپنی سچائی اور اصول پرستی کے ٹرانسپرینسی سے انہوں نے پورے نظام اور سیاست کو پوری طرح سے عریاں کرکے رکھ دیا، کس طرح سے پاکستان کی غلاظت میں لپٹی ہوئی صحافت کے بدبودار چہرے کو بے نقاب کردیا، کس طرح سے عدالت کی چالبازیوں اور اس کے دوہرے کردار کو بے نقاب کردیا، یقیناً اس کا کریڈٹ صرف اور صرف عمران خان کو جاتا ہے جنہوں نے 75 برسوں سے پاکستانی عوام کو غلام بنا کر ان کے وسائل پر ڈاکہ مارنے والے نام نہاد اپنوں کو بے نقاب کیا اس تاریخ ساز کارنامے پر یقیناً عمران خان مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کے اصل کرداروں سے لے کر خود بابائے قوم کے پراسرار ہلاکت کے علاوہ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور خاتون وزیر اعظم شہید بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ذمہ دار خود ان کے اپنے ہی بے نقاب ہو گئے ان تمام اسکینڈلز کو اصل کرداروں سمیت بے نقاب کرنے پر عمران خان اور ان کی سیاست مبارکباد کی مستحق ہے۔
ملکی عوام کو اب بھی چاہئے کہ وہ اپنوں اور دشمنوں میں تمیز کریں اور متوقع الیکشن میں انہیں ہی ووٹ دے کر اپنا رہبر بنوائیں جو ان کا اپنا ہو، اس ملک کا ہو، آزادی اور خودمختاری کا داعی ہو، اسی میں پاکستان کی بقاءاور اس کی سلامتی مضمر ہے۔
