Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 173

جنگل کا قانون

جنگل کا قانون کا دوسرا نام پاکستان ہو گیا ہے، دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانی اس وقت موجودہ طرز حکمرانی کی وجہ سے شدید ترین شرمندگی کا سامنا کررہے ہیں، ہر جگہ انہیں یہ ہی سننے کو ملتا ہے کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق کی طرز حکمرانی سے کام چلایا جارہا ہے، پوری دنیا خاص طور سے مہذب معاشروں میں قانون ہمیشہ سے مظلوم کی ڈھال یعنی اس کے ہتھیار کا کردار ادا کرتا ہے مگر بدقسمت پاکستان میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے، یہاں قانون بھی مظلوم کے بجائے ظالم ہی کو ہتھیار اور ڈھال بن جاتا ہے، جس کی وجہ سے مظلوم کی دادرسی کسی بھی قوم پر نہیں ہوتی، پاکستان کا عدالتی نظام انصاف کے نام پر ایک بدنما دھبہ بن گیا ہے۔ سعادت حسین منٹو نے جو بات برسوں قبل کہی تھی وہ پاکستان کے عدالتی نظام پر اس وقت پوری طرح سے صادق آرہی ہے کہ جج صاحبان کمزور سائل کے آنے پر دھوتی آگے سے اور طاقتور کے آنے پر پیچھے سے اٹھا لیتے ہیں یہ ہی صورتحال چھوٹی عدالتوں سے لے کر ملک کی سب سے بڑی عدالتوں کے ججوں کا ہے اس وجہ سے پاکستانی معاشرہ زمانہ قدیم کے جنگلی معاشرے سے بھی بدترین نہج پر پہنچ گیا ہے، کہنے کو وہاں جمہوریت ہے، انتخابات بھی ہوتے ہیں مگر کس طرح سے وہ بھی سب کے سامنے ہے، اس وقت پاکستان کو نہ تو کسی مالی مدد کی کوئی اشد ضرورت ہے اور نہ کسی اور سازوسامان کی۔۔۔؟ اس وقت پاکستان کو انصاف یعنی قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہے، قانون کی حکمرانی ہی وہ واحد ”ماسٹر آف کی“ ہے جو سارے مقفل تالوں کو کھولنے کا باعث بنے گی، یہ ”ماسٹر آف کی“ غلامی کے تالے کو بھی کھول کر پاکستانیوں کو حقیقی طور پر آزاد کرے گی، ان تالوں سے جو ملک پر قابض مافیاز نے ہر فورم پر لگا رکھی ہے، چاہے وہ پولیس ہو، عدلیہ ہو، بیوروکریسی ہو یا پھر نیب سمیت سارے کے سارے ادارے۔ ان تمام کو آزادی ہی اس صورت میں مل سکے گی جب ملک میں قانون کی حکمرانی ہو اور قانون ظالم کا نہیں بلکہ مظلوم کے مددگار کا کردار ادا کرے اور انصاف کا ترازو کسی مجرم یا طاقت ور کے ہاتھوں میں ہیں بلکہ کسی حقیقی منصف کے ہاتھوں میں ہوں جس میں انصاف کرنے کی ہمت اور جرات ہو جو آئین اور قانون کے مطابق شہادتوں کی موجودگی میں برے کو برا کہہ سکے یہ جو میں کہہ رہا ہوں، لکھ رہا ہوں، میں کوئی اکیلا ہی نہیں جس پر یہ راز فاش ہوا ہے یا یہ سچ اور حقیقت صرف میں واحد ہی جانتا ہوں، سارے کے سارے پاکستانی اس حقیقت سے واقف ہیں لیکن بدقسمتی پاکستان میں جس طرح کی طرز حکمرانی ہے اس کی وجہ سے لوگ سچ بولنا یا بھول گئے یا پھر سچ بولنا جانتے ہی نہیں، کوئی بھی اس پنگے میں پڑنا نہیں چاہتا، ہر کوئی چل چلاﺅ سے کام لے رہا ہے حالانکہ جن کا کام ہی ملکی عوام تک حقائق کو پہنچانا ہے یعنی ذرائع ابلاغ صحافت نے بھی اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، پہلے بھی اپنے ان ہی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ پاکستان میں صحافت کبھی ہوا کرتی تھی، بہت عرصہ ہو گیا اس کا انتقال ہو گیا، چالیسواں تو کب کا ہو چکا ہے، اب تو اس کی برسی بھی قریب آنے والی ہے، کاش وہ زندہ ہوتی تو آج ملک کی یہ صورتحال نہ ہوتی، جو اس وقت ہے، سنا ہے انتخابات ہونے والے ہیں اس کی پوری تیاری کرلی گئی ہے، تحریک انصاف کے پرخچے اڑا دیئے گئے ہیں، اس کے حصے بخرے کر دیئے گئے، بڑے بڑے نامور لیڈروں کو ڈرا دھماکہ کر پارٹی سے نکلوا دیا گیا لیکن اس کے باوجود دوسری جانب والوں کو اطمینان نہیں ہو رہا ہے، ابھی تک وہ اسی تذبذب میں مبتلا ہیں کہ وہ اس الیکشن میں عمران خان کا مقابلہ کر سکیں گے، تمام تر حکومتی وسائل رکھنے کے باوجود الیکشن کروانے والے بے چین دکھائی دے چکے ہیں، ایک انجانا سا خوف ان کا تعاقب کررہا ہے، بڑے ٹھوک بجا کر یہ دعویٰ کرتے تھے کہ عمران خان کو ہم لائے ہیں جو لاتا ہے وہ گراتا بھی ہے جو سنوارتا ہے اور بکھیرتا بھی ہے، آپ تو بازیگر ہیں پھر گھبراہٹ کیسی؟ آپ نے عمران خان کو جتوایا تھا، اسے تراشنا تھا، اب اسے تباہ و برباد بھی کر دو، گیم تو آپ کے ہاتھ میں ہے پھر ڈر اور خوف کس کا۔۔۔
کیوں ایک الیکشن کروانے کے لئے اتنی قانون سازیاں کررہے ہیو، اپنے مرضی کی عبوری حکومت لانے کے لئے انہیں اختیارات دینے کے لئے عجلت میں قانون سازی کروا رہے ہو، صاف کیوں نہیں کہتے کہ ترازو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ووٹروں کو تولنا چاہئے ہو تاکہ ڈنڈی مارنے میں آسانی ہو، تم لوگوں کو یہ ہی ڈر لگا ہوا ہے کہ کہیں ترازو کے دوسرے پکڑے میں پی ٹی آئی کا وزن بڑھ نہ جائے، اسی لئے ترازو یعنی نگراں سیٹ اپ عبوری حکومت اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہو، اگر پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہوتی تو ایسا کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا، اب اس لاقانونیت کون روکے گا، سپریم کورٹ یا پھر الیکشن کمیشن۔۔۔؟ سب کو تالا لگا دیا گیا ہے، ملکی عوام کو خود ہی بیدار ہونا ہو گا، اپنی حقیقی آزادی کے لئے خود نکلنا ہو گا، اس میں خود ان کی فلاح اور پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں