اسرائیل حماس جنگ سے دنیا ہل کر رہ گئی، اس پورے تنازعہ اور جنگ پر مغربی دنیا اور مغربی میڈیا کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے، اسے وہ اپنے زاویہ یا پھر نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس سارے خونی کھیل میں ظالم کو مظلوم کے طور پر اور مظلوم کو ظالم کے طور پر وطن یا پھر دہشت گرد کے طور پر دیکھ رہی ہے، ان کی نظر میں اسرائیلی معصوم اور بے گناہ ہیں، ان پر حملہ کرکے ایک بہت بڑی دہشت گردی کی گئی ہے اور اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے۔ یہ نقطہ نظر جو حقائق کے برخلاف ہے یورپی عوام کا نہیں بلکہ ان کے خود غرض حکمرانوں اور اشتہاروں کے لئے مرے جانے والے میڈیا کا ہے لیکن اس کے برعکس خود اسرائیلی میڈیا کی غالب اکثریت اس سارے افسوس ناک سانحہ کے لئے اپنے ہی وزیر اعظم کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے، ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کا وزیر اعظم اگر اپنے ملک کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی توسیع پسندانہ پالیسی کو جاری نہ رکھتے ہوئے فلسطینی علاقوں میں غیر قانونی طریقے سے قابض نہ ہوتے تو اسرائیلیوں کو قیامت سے پہلے اس طرح کی قیامت صغریٰ کو دیکھنا نہ پڑتا۔ وہ اس کے لئے حماس کو نہیں بلکہ اپنے وزیر اعظم کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے، یہ ہوتی ہے آزاد اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھنے والی صحافت۔۔۔ جو مجرمانہ غفلت و لاپرواہی میں بہہ جانے والے حکمرانوں کے لئے آئینہ کا کردار ادا کرتی ہے جس میں وہ اپنی صورت دیکھ کر اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ یاد رکھیے جو قوم اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرتی وہ کبھی بھی اصلاح کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔ یہ ہی ہمیں ہمارا مذہب قرآن مجید میں ہمیں اپنے پہلے رسول اور یہی حضرت آدم علیہ السلام کے دعا کی صورت میں نہ صرف سکھاتا ہے بلکہ اس پر چلنے کی بھی تلقین کرتا ہے، یہ اتنی بڑی لمبی چوڑی تمہید باندھنے کی مجھے ضرورت یا پھر نوبت اس لئے پیش آئی کہ اس وقت بدنصیب ملک پاکستان میں انصاف اور قانون کے علاوہ جمہوریت کے نام پر کیا جارہا ہے اس پر پاکستانی صحافت کے کردار کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے کو چاہتا ہے، لگ ہی نہیں رہا کہ پاکستان میں کوئی صحافت ہے؟ کوئی عدالت ہے؟ ساری دنیا عمران خان کے خلاف درج کئے جانے والے 200 سے زاہد مقدمات کی حقیقت سے واقف ہے، اگر کوئی نہیں جانتا ہے تو وہ پاکستان کی صحافت اور پاکستان کی عدالت ہے جو ان مقدمات پر رپورٹنگ اور تبصرے و تجزیے کرنے اور ان مقدمات کی سماعت کرنے کی صورت میں اس سارے کھیل کا ایک حصہ بن گئے ہیں، اب اس طرح کے نظام کو دیکھ کر کس کا دل اس پر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے کو نہیں چاہے گا۔
حضرت علیؓ کا ہی قول ہے کہ کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔۔۔ تو پھر پاکستان کا یہ نظام پھر ظلم کے ساتھ کس طرح سے چل سکتا ہے؟ پاکستان کے 33 ٹی وی چینلز اور اخبارات میں سے کسی ایک میں بھی اتنی جرات اور ہمت نہیں کہ وہ اصل بات کہہ سکے، لکھ سکے، سب کے سب یکطرفہ تماشے میں شامل ہو گئے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر سیاستدانوں کو اغواءکرکے لایا جاتا ہے اور ان پر وحشیانہ تشدد کرکے ان کا اعترافی بیان یعنی عمران خان کو جو کہ پاکستان کے سب سے مقبول عوامی رہنما ہیں انہیں داغدار کرنے، ملک دشمن ثابت کرنے کے لئے ان کے جانثاروں سے ان کے خلاف بیانات بلوائے جارہے ہیں۔ میڈیا کو ساری حقیقت کا علم ہے مگر اس کے باوجود اس نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہوئی ہے۔ بد نصیب پاکستان پر ایک سیاہ رات چھائی ہوئی ہے جس میں ظلم اور نا انصافی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اتنی نا انصافی کے اس کا تصور پاکستان کے کسی بھی مارشل لاءمیں نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کو ایک حقیقی آزادی کی ضرورت ہے، پاکستان ملک لوٹنے والے سیاستدانوں کے قبضے میں ہے، جن سے ملک کو آزاد کروانا ہر محب الوطن پاکستانی پر واجب ہے، اس کے لئے انہیں اپنے اپنے طور پر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے، ملکی سیاستدان اس وقت میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کررہے ہیں، صحافت اور عدالت ان کے سہولت کار بن گئے ہیں، حقیقی آزادی میں ہی پاکستان کی بقاءمضمر ہے۔
