Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 202

فلسطینیوں پر ظلم اور برطانوی سیاستدان؟

برطانوی حکمراں پارٹی فلسطین اسرائیل تنازعہ میں کھل کر فلسطینیوں کی مخالفت میں آگئی جس کی وجہ سے برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں میں حکمراں پارٹی کے خلاف غم و غصےے کی لہر دوڑ گئی ہے جو کہ ایک فطری امر ہے اس سلسلے میں جو بات سامنے آئی ہے وہ برطانیہ کے ایک وزیر کو محض اس لئے ان کی وزارت سے برخاست کیا ہے کہ انہوں نے غزہ میں کی جانے والی ظلم و نا انصافی پر اپنی ایک حقیقت پسندانہ پوزیشن لیتے ہوئے وزیر پال بریٹو وزیر اعظم رشی کو لکھے گئے خط میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا اگر دیکھا جائے تو ان کا یہ مطالبہ نہ تو کسی فریق کی حمایت میں ہے اور نہ ہی کسی کی مخالفت میں۔۔۔ بلکہ اس مطالبہ کا تعلق انسانیت اور امن سے ہے مگر غزہ میں حالات کے ذمہ داروں کو برطانوی وزیر کا اس طرح کا مطالبہ پسند نہیں آیا اور انہوں نے برطانیہ کے کٹھ پتلی وزیر اعظم رشی سونک سے ان کے اس وزیر کو اپنی کابینہ سے نکال باہر کرنے کا مطالبہ کردیا اور اس کے بعد اس کٹھ پتلی وزیر اعظم نے وہی کیا جو اسے کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ اسی طرح سے لیبر پارٹی نے بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر اپنے ایک سینئر رکن پارلیمنٹ اینڈی میک دونلڈ کی رکنیت معطل کردی ہے اور سونے پہ سہاگہ خود برطانوی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے اس سے بھی زیادہ اسرائیل سے وفاداری سنبھاتے ہوئے برطانوی پولیس سے کہہ دیا ہے کہ پولیس فلسطینیوں کے حق میں یہود مخالف مظاہرہ کرنے والوں سے نرمی نہ برتیں یعنی ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مظاہرہ کرنے والوں کا مقصد اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ میری نظر میں یہ ہیٹ مارچ ہے اور انہوں نے پولیس سے کہا کہ وہ اس طرح کے مظاہروں پر بالکل بھی نرمی سے کام نہ لیں۔ برطانوی وزیر داخلہ کے اس بیان سے ان کی تنگ نظری کے علاوہ یہود سے محبت اور فلسطینی مسلمانوں سے شدید نفرت صاف طور پر نظر آرہی ہے جو ان کے اس منصب کے صریحاً خلاف ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کے اس طرح کے متعصبانہ بیان سے پورے برطانیہ یں ان پر مختلف تنظیموں کی جانب سے بھرپور تنقید کی گئی ہے۔ سعیدہ وارثی کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر داخلہ کمیونٹینز میں تقسیم اور ان میں نفرتیں پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ دوسری جانب رکن پارلیمنٹ افضل خان کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر داخلہ کی جانب سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرہ کے ہیٹ مارچ قرار دینا انتہائی خطرناک ہے۔
سربراہ اسکاٹش لیبر پارٹی انسل سرور نے کہا کہ برطانوی وزیر داخلہ کا بیان کمیونٹیز کے درمیان تناﺅ کو ہوا دینے کا باعث ہوگا۔ یہ صورتحال برطانیہ جسے ایک جمہوری ملک کے سیاستدانوں کا ہے جن کا نعرہ ہی فریڈیم اور امن کے علاوہ انسانیت کی خدمت ہے اس بدلتی صورتحال نے مغربی جمہوریت اور ان کے اقدار اور انسانی حقوق کی پاسداری کی ساری قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ وہ صرف دکھاوا ہے ان کی نظروں میں ظالم اور مظلوم کا فرق مٹ گیا ہے اور ظالم کے بارے میں کارروائی کرنا تو کجا ان کے خلاف کچھ سننا بھی نہیں چاہتے۔ یہ حال برطانیہ کے علاوہ امریکہ، فرانس اور دوسرے مغربی ممالک کا بھی ہے جو اس وقت جنگ میں کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اور انہیں ان کی جارحیت اور قتل عام سے روکنے کے بجائے ان کو تھپکیاں دے کر ایک طرح سے خود بھی فلسطینیوں کے قتل عام میں شامل ہو گئے ہیں اس لئے برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی صورتحال میں اسلام مخالف پارٹیوں کا سوشل بائیکاٹ کریں اور انتخابات میں ان سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کو بالکل بھی ووٹ نہ دیں کیونکہ وہ ان ہی کے ووٹوں کے سہارے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں اور اس کے بعد اپنی پارلیمانی طاقت کا استعمال بھی خود مسلمانوں کے خلاف ہی کرتے ہیں اس وجہ سے اس طرح کے متعصب سیاستدانوں کو سبق سکھانے کے لئے خود ان کے انداز سے ہی ان کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں