Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 263

نہ چھیڑ ملنگاں نوں

ملک نگران حکومت کے تحت چل رہا ہے، کاکڑ صاحب کڑاکے سے وزارت عظمیٰ کو چلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ظاہر تو یہی کرتے ہیں کہ وہ بہت با اختیار وزیر اعظم ہیں مگر آج کی عوام اس کھیل کو پوری طرح سمجھ چکی ہے اور اس بار کھلاڑی بھی ڈرے ہوئے ہیں کیوں کہ عمران خان کو آپ جو چاہیں کہہ لیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعہ پاکستان کے عوام کو ایک ایسا سبق پڑھا دیا ہے کہ وہ آنے والے وقت میں حکمرانوں کو ماضی کی طرح کھیلنے کودنے کا موقع فراہم نہیں کرے گا۔ اب الیکشن التواءمیں پڑتے ہیں تو بھی اور اگر ہو جاتے تو بھی۔ عوام کو نتائج دکھانے ہوں گے ورنہ ملک ہنگاموں اور انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ پرانے سیاستدانوں کا حال تو وہی ہے مگر افسوس عوام پر ہوتا ہے۔ سابق حکمرانوں کا ساتھ دینے والوں پر ہوتا ہے کہ جنہوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا مگر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ آپ آصف علی زرداری کے بارے میں جیالے سے بات کرلیں وہ یہی کہے گا ”ایک زرداری سب پہ بھاری“، آج کا جیالا آصف علی زرداری کو ایک کامیاب سیاستدان سمجھتا ہے، انہیں منصوبہ ساز، معاملہ فہم اور شاندار گفت و شنید والا سمجھتا ہے اور انہیں ایک ایماندار اور پاک، صاف لیڈر تصور کرتا ہے اور کیوں نہ کرے جب پنجاب میں نواز شریف اور شہباز شریف گنگا نہا چکے ہیں تو پھر ہمارے سندھی بھائی کیوں پیچھے رہ جائیں۔ جب ”ساڈا بندا“ کی ٹرمپ سامنے ہو تو پھر وہی مثال صادق آتی ہے کہ ”دوسروں کی آنکھ کا بال سب دیکھ لیتے ہیں مگر اپنی آنکھ کا شہتیر کسی کو نظر نہیں آتا“۔
مجھے یاد ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی کو جیالوں نے بڑی مشکل سے قبول کیا تھا۔ اس وقت لوگ کہتے تھے کہ سینما ٹکٹوں کو بلیک کرنے والا ان کی بی بی کا شوہر بن گیا ہے، سندھی زرداری کا نام لینے پر منہ چھپاتے تھے مگر آج آصف علی زرداری ملک کے امیر ترین شخص ہیں۔ 90 کلفٹن کے اردگرد کے تمام مکانات خرید لئے گئے ہیں۔ سندھ میں سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی، لندن میں مہنگے ترین علاقوں میں لگژری فلیٹس اور نہ جانے کیا کیا مگر عوام سب بھول جاتی ہے اور یہ بات سیاستدان خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ جس قوم کے لیڈر ہیں وہ ایک ”پھدو قوم“ ہے۔ آج لوگ ایان علی کو بھی بھول گئے، دوبئی کی جانب جاتی ہوئی لانچوں میں سے ڈالرز برآمد ہونا، سب کچھ کھیل تماشہ تھا اور کوئی نہ بولا۔ جو بولا اس کسٹم افسر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ میاں صاحبان کی بات کریں تو انہوں نے اپنی منی لانڈرنگ اور کرپشن چھپانے کے لئے مقصود چپڑاسی کو ڈھونڈ لیا جس کے بینک سے کروڑوں ڈالرز نکلے لیکن کوئی شد بد نہیں کہ کہاں گئے، ہم نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر فراڈ کرنے والوں کو گرفتار ہوتے نہیں دیکھا۔ مگر ہاں عوام کو چھوٹی سی غلطی کے لئے بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ یہی وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے اس ملک کا منہ کالا کیا ہے اور انہیں پالنے والے ہمارے فوجی جنرل آج بھی وہی پرانا کھیل کھیلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں شاید وہ نہیں جانتے کہ مستقبل کا پاکستان مکمل طور پر اس کے برعکس ہو گا۔ بس اب بہت ہو گیا، جس نے جو لوٹنا تھا لوٹ کے لے گیا مگر ماضی کے لٹیرے دوبارہ اگر لوٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو یقین جانیے ان کی سادی پر ترس آتا ہے۔
عام تاثر یہی ہے کہ الیکشن کے نتیجہ میں بننے والی حکومت خواہ کسی کی بھی ہوگی، اب کام کرنا ہوگا، وگرنہ وہ اپنے عہدے پر برقرار نہ رہ سکیں گے، اور کیا لکھیں، اب تو دل زخمی رہ کر بھی تھک چکا ہے، نہ جانے ہمارے ملک پاکستان پر کب بہار آئے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں