اسلام آباد (پاکستان ٹائمز) پاکستان میں الیکشن 8 فروری کو ہو پائیں گے یا نہیں، یہ سوال عام انتخابات کا حتمی اعلان ہو جانے کے باوجود ملک کے سیاسی منظرنامہ سے مکمل طور پر غائب نہیں ہو پارہا۔ عام انتخابات سے بمشکل ایک ماہ قبل ایک مرتبہ پھر ”الیکشن میں تاخیر“ کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور اس بار یہ آواز پاکستان کے ایوان بالا سے ابھری ہے۔ پاکستان کی سینٹ میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات ملتوی کرنے کی ایک قرارداد منظور کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی کے حالات خاص طور پر چھوٹے صوبوں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں انتخابی مہم چلانے کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ماہ فروری میں ان صوبوں کے زیادہ تر علاقوں میں موسم انتہائی سرد ہوگا۔ اس لئے وہاں کے لوگ ووٹنگ میں حصہ نہیں لے پائیں گے۔ انتخابات ملتوی کرانے کی یہ قرارداد ایک آزاد سینیٹر دلاور خان کی طرف سے پیش کی گئی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ سینٹ آف پاکستان یہ توقع کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے شیڈول کو ملتوی کرکے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے گا۔ تمام صوبوں کے افراد کے لئے انتخابی عمل میں شرکت کے یکساں مواقع فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔ سینیٹر دلاور خان کی پیش کردہ قرارداد کو 104 ممبران کے ایوان میں موجود محض 14 سینیٹر نے منظور کرلیا یعنی ووٹنگ کے کورم پورا نہ ہونے کے باوجود قرارداد منظور کرلی گئی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان میں سے بھی دو سینیٹر جن کا تعلق پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی سے ہے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جب کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک سینیٹر افغان اللہ نے بھی اس قرارداد کی مخالفت کی۔ قرارداد کی حمایت کرنے والے سینیٹرز میں زیادہ تر کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں یا پھر بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے تاہم پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ سینٹ کی اس قرارداد کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کیا ہوگی۔ کیا الیکشن کمیشن آف پاکستان اس قرارداد کے متن پر جزوی یا مکمل طور پر کسی بھی طرح عمل کرنے کا پابند ہے؟ اگر ملک کی بڑی جماعتیں الیکشن میں التواءکی مخالف ہیں تو سوال یہ ہے کہ ایوان بالا کے ذریعہ انتخابات میں التواءکی کوششیں کون اور کیوں کررہا ہے؟
