٭….(رپورٹ: سکندر ابوالخیر)….٭
”مکالمے میں کسی کی بولتی بند (speechless) کرنا بڑی غلطی ہے“۔ ”مکالمے کی کامیابی کے لیے سچائی کا ادراک، ضد اور انا سے پرہیز اور سمجھوتہ ضروری ہیں“۔”کسی محترم ہستی کو اپنے خیال میں لائیے اور اس سے مکالمہ کیجیے“ اور ”تنازعات کے حل کے لئے جو چیز کام کرتی ہے وہ مکالمہ ہے“۔ ان خیالات کا اظہار محترم شاہد اختر فرما رہے تھے جو اربابِ قلم کینیڈا کی محفل ”ادبی مکالمے پر مکالمہ“میں مہمانِ خصوصی تھے۔4 فروری کو ٹورانٹو سے ملحق شہر مسی ساگا میں موسم خوشگوار تھا۔ شرکا کی کثیر تعداد کا محفل کے آخر تک انہماک قابلِدید تھا۔ شاہد اختر صاحب ٹورانٹو کے ایک ماہر کونسلر(counsellor) ہیں اور ”تنازعات کے حل“کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ آپ ادب شناس اور ادبی ذوق رکھنے کے علاوہ دیگر ادب پاروں کا اردو ترجمہ بھی کرچکے ہیں۔ محفلسہ پہر ساڑھے تین بجے شروع ہوئی۔اربابِ قلم کے سینئر رکن جناب انور کاظمی نے مہمانوں کا استقبال کیا، موضوع کا اعادہ کیا اور ارباب قلم کے ایک اور رکن مشہور شاعر جناب جنید اختر سے پروگرام کو آگے بڑھانے کی درخواست کی۔
جنید اختر نے شرکا کی تعداد دیکھ کر کلیجہ بڑا ہوجانے کا مژدہ سنایا اور پروین سلطانہ صبا صاحبہ کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ارباب قلم کو ایک نیا بینر ہدیہ کیا ہے۔ جنید اختر نے مکالمے کی اہمیت پر مختصر بات کی اور امجد اسلام امجد کا یہ شعر پیش کیا جومکالمےکی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے ”ہمیں ہماری انائیں تباہ کر دیں گی/مکالمے کا اگر سلسلہ نہیں کرتے“۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے کی ذہنی نشوونما اور صحتمندانہ رویہ مکالمے سے وابستہ ہے، بقول حفیظ ہوشیارپوری ”دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی/اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے“۔ اس کے بعد جنید اخترنے جناب شاہد اختر کا استقبال کیا، ان کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دیتے ہوئےکہا کہ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے 18 سال پبلک سیکٹر میں Human Resources میں کام کیا ہے۔ اور دس ہزار سے زیادہ لوگوں کو مکالمے کے حوالے سے تربیت دی ہے۔ان کی مہارت کے قابل ذکر موضوعات میں
Diversity, workplace harassment, mediation, conflict resolution, cultural sensitivity, leadership skills, prevention of harassment
وغیرہ شامل ہیں۔آپ Conciliators without borders
نامی تنظیم سے وابستہ ہیں اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کر رہے ہیں جس پر مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔جنید اختر نے اربابِ قلم کے روحِ رواں جناب فیصل عظیم کو دعوت دی کی وہ اسٹیج پر آکر مکالمے کا آغاز کریں۔فیصل عظیم نے واضح کیا کہ آج مکالمے کے ادبی پہلوو ¿ں پر مکالمہ ہوگا۔ اس کے لیے ہمیشہ کی طرحایک سوالنامہ ہمارے پینل نے تیار کیا ہے۔ پہلے ارباب قلم کے ارکان وہ سوالات کریں گے اور پھر حاضرین سے سوالات لیے جائیں گے۔
مکالمے پر افتتاحی خطاب: اس سے پہلے کہ فیصل عظیم سوالات کا سلسلہ شروع کرتے، شاہد اختر صاحب نے خواہش ظاہر کی کہ وہ روسٹرم پر آکر افتتاحی خطاب کرنا چاہتے ہیں۔شاہد اختر صاحب نے فیصل عظیم اور جنید اختر کا شکریہ ادا کیا۔ جنید اختر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ امجد اسلام امجد نے مکالمے پر بہت کچھ لکھا ہے۔ ان کا ڈرامہ ”وارث“ مکالمے کی ایک مثال ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ تنازعات کے حل کے لیے مکالمہ نہایت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ تنازعات کے حل کے لیے تشدّد یا دشمنی پر مبنی طریقہ استعمال کرتے ہیں مگر جو چیز کام آتی ہے وہ مکالمہ (dialogue) ہے. میرے لیے یہ بات قابلِ فخر ہے کہ اربابِ قلم نے اس موضوع پر بات کرنے کے لئے میرا انتخاب کیا ہے۔ مکالمے کا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور ہوتا ہے یعنی آپ اس سے کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میری ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ ایسے پروگراموں سے افادیت کا کوئی پہلو فراہم ہو سکے۔ میں 3Esکے تحت چلنے کی کوشش کرتا ہوں یعنیEducation, Entertainment, Engagement تو میں آپکو انگیج کروں گا۔ اس کے لیے آپ سب ماضی میں ہوا کوئی ایسا ناکام مکالمہ سوچ لیں جس نے آپ کو بے چینی میں مبتلا کیا ہو اور جو باتیں آپ یہاں سنیں ان کو اس ناکام مکالمے پر لاگو کرتے جائیں اور سوچیں کہ کیا اس طور سے وہ مکالمہ کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا تھا یا نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈائیلاگdialogueایکیونانی(
(۱)کیا سچائی آپ کے حق میں تھی یا فریق کے حق میں؟ (۲) کیا آپ جان بوجھ کر سچائی کے خلاف بات کر رہے تھے (ضد اور ہٹ دھرمی پر آپ تو قائم نہیں تھے)؟ (۳) کیا آپ سو فیصد دعوے کے بغیر نہیں مانیں گے(کمپرومائز نہیں کریں گے)؟ مکالمے میں کمپرومائز ضروری ہے۔ادب میں مکالمہ اگرچہ قبل از مسیح شروع ہو گیا تھا لیکن افلاطون کی کتاب ڈائیلاگ نہایت اہم پیشرفت ہے۔ اقبال نے عورت کے لیے لکھا”مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن/اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں“۔ مکالمے کو ایک Civilized Writing میں لانے میں افلاطون کا بڑا کردار ہے لیکن مکالمے کو مقبولِ عام بنانے کے لیے ڈرامہ نویسوں نے اس صنف کو بہت استعمال کیا ہے۔ شیکسپیئر نے انگریزی میں اور آغا حشر کاشمیری نے اردو میں اس کو مقبول عام کیا۔ شعرائ ، خصوصاً اقبال اس باب میں ایک درخشاں مثال ہیں جیسے ان کی نظمیں”مریدِ ہندی اور پیرِ رومی“،”لینن خدا کے حضور میں“ وغیرہ۔ ”تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں/ہیں سخت بہت بندہ مزدور کے اوقات“۔ ”کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ/دنیا ہے ابھی منتظرِ روزِ مکافات“۔اسی طرح ابلیس اور جبریل کا مکالمہ بڑا مشہور ہے۔اگر آپ ان مکالمات کو statement کی طرح لکھتے ہیں تو اس میں وہ زور نہیں آتا بلکہ کھٹکتا ہے۔ ”گر میسر ہو تجھے خلوت تو پوچھ اللہ سے/قصہآدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو“۔ بہت کم شعرائ نے مکالمے کو اس طرح استعمال کیا جس طرح اقبال نے استعمال کیا۔
انھوں نے کہا کہ اگر آپ نے اپنے مکالمے میں یہ گنجائش رکھی ہے کہ آپ انصاف کی بات قبول کریں گے، اور سب سے مشکل بات یہی ہے، تو حل کی امید ہے۔ ہم سب سے بڑا دھوکہ مقابل کے بجائے خود کو دے رہے ہوتے ہیں۔ تو آپ خود سے یہ پوچھیں کہ کیا آپ مکمل سچائی پر تھے؟ اور کیا آپ حل کے لیے committed ہیں؟ اگر ایسا ہے تو یقیناً مکالمے کی تلخی کہیں کم ہو جائے گی، نفرت کے بجائے محبت، دشمنی کے بجائے دوستی شامل ہو گی اور اس طریقے سے مکالمے کا نتیجہ مثبت ہوگا۔ یہ میرا آپ کے لیے مشورہ ہے۔ ”کوئے جاناں کے لیے ہی نہیں مخصوص رکھا/میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“
مکالمے پر مکالمہ: اس خطاب کے بعد شاہد اختر صاحب گول میز پر واپس آئے تو مکالمے کا آغاز ہوا۔ فیصل عظیم نے کہا کہ کئی سوالات کے جواب آپ کے افتتاحی خطاب سے مل گئے اور پہلا سوال مکالمے کی اقسام کے بارے میں کیا جس کے جواب میں انھوں نے فرمایا کہ افلاطون نے کہا تھا کہ مکالمے کے لیے کردار ہوتا ہے، پیغام ہوتا ہے۔ بیانیہ انداز میں وہ زور نہیں ہوتا۔ افسانہ یا ناول میں “کوٹ ان کوٹ” کر کے بیان نہیں ہوتا۔ مکالمے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس کردار کے لیے آپ لکھ رہے ہیں اس کا پورا سیاق و سباق اور ماحول دیکھ کر لکھا جائے۔ رامپور کے گاو ¿ں کی سولہ سالہ لڑکی ایک فلسفیانہ اور سلجھے ہوئے لہجے میں بات نہیں کر سکتی، ضروری ہے کہ ڈائلاگ کردار سے مطابقت رکھتے ہوں۔ ڈرامے میں صرف ڈائلاگ ہوتے ہیں۔ ریڈیو، ٹیلیویژن کے ڈراموں اور فلموں میں صرف ڈائلاگ ہی ہوتے ہیں۔ ایک کالم میںscenarioاور دوسرے میں الفاظ ہوتے ہیں اس کے بغیر تاثر قائم نہیں ہوتا۔دوسرا سوال زبانی اور تحریری مکالمے کے موثر ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تھا جسکے جواب میں فرمایا کہ خود کلامی ایک بڑا عنصر ہے۔ آپ اپنے آپ سے جتنا honestly بات کر سکتے ہیں اتنا کسی اور سے نہیں کر سکتے۔ ایک بہت پرانیٹکنیکہے، مگر بہت کم لوگ اس کو اپناتے ہیں وہ یہ کہ آپ کسی بہترین عقلمند شخصیت کے بارے میں سوچیں، اپنے خیالات میں ان کو مدعو کریں اور ان سے مکالمہ کریں۔ آپ حیران ہوں گے کہ آپ کے ذہن میں وہ چیزیں آئیں گی جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے، حالانکہ وہ آپ کی ہی ذہنی تخلیق ہوں گی۔مکالمے کے لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ میں تو یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہوں مگر وہ نہیں چاہتا۔ میرے پاس جب لوگ تصفیے کے لیے آتے ہیں تو ان کے چہروں پر ایک دوسرے کے لیے شدید نفرت ہوتی ہے۔ لیکن کنٹرولڈ ماحول میں کچھ دیر بات کرنے کے بعد وہ آہستہ آہستہ ایک کامن گراو ¿نڈ پر آجا تے ہیں،ایک دوسرے کی دشمنی کے بجائے مسئلہ مشترکہ دشمن قرار پاتا ہے اور فریقین اس کو حل کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔
اخبارات اور تقاریر کے ذریعے مکالمے کی اہمیت کے بارے میںانھوں نے فرمایا کہ تحریری اور تقابلی مکالمے بہت اہم ہیں۔ دنیا کے بڑے شہروں میں ادبی تنظیمیں ہوتی ہیں، دھڑے بندی بھی ہوتی ہے۔ لاہور میں پاک ٹی ہاو ¿س اور کافی ہاو ¿س وغیرہ جیسی جگہیں دنیا میں بکثرت پائی جاتی ہیں جہاں خط، تبصرہ یا افسانہ لکھ کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح Oscar Wilde اور George Bernard Shaw کی آپس میں چلتی رہتی تھی جس میں طنز ہوتا تھا۔ اس سے ادب کا فائدہ ہوتا ہے،گروہ بندی ہمیشہ منفی نہیں ہوتی۔ اگر آپ منفی حالات میں کوئی مثبت پہلو تلاش کرنا چاہیں تو آپ کا مخالف اس میں آپکی مدد کر سکتا ہے۔ یہSituation Win-Win ہے۔یہ سب کرتے ہوئے آپ کبھی بھی اپنے مخالف کو speechlessنہ کریں۔ اس سے بڑا مکالمے کا دشمن کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ آپ مخالف کو چپ کرادیں۔ اس سے مخالف کے دل میں مدافعت پیدا ہو جائے گی اور آپ ایک argument جیت کر ایک دوست کھو دیں گے۔مکالمے کی شرائط بابت سوال کے جواب میں فرمایا کہ اردو میں تو لٹریچر کو کہتے ہیادب ہیں، جس کا مطلب ہے آداب یعنیMannerism, Civility Politeness۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ فریقین آپس میں مسئلہ حل نہیں کرسکتے تو کسی دوست یا خاندان کے تیسرے فرد کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں جو مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔سب سے پہلے اصول (Ground Rules) مرتب کیجیے۔ دونوں فریق اس پر آمادگی ظاہر کریں۔ آدھا مسئلہ یہیں حل ہو جاتا ہے۔بات سے بات نکال کر ایک مسئلہ میں دوسرے مسئلوں کو گھسیٹنے سے گریز کریں ورنہ بات کہیں سے کہیں جا نکلے گی اور مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ”ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا/بات پہنچی تری جوانی تک“
اس موقع پر ارباب قلم کے سرگرم رکن سکندر ابوالخیر نے دو سوالات ایک ساتھ کیے۔ پہلا سوال مضبوط اور ضعیف جیسے باس اور ورکر یا مضبوط اور کمزورspouse بابت تھا جس پر شاہد اختر صاحب نے کہا کہ یہ بہت اہم سوال ہے۔ ثالث کے بنا اس مسئلہ کا حل مشکل ہے۔ ثالث (میڈی ایٹر) کی حیثیت سے ہمارا سب سے بڑا فرض یہ ہوتا ہے کی دونوں فریقوں کو یہ ہدایت کر دیں کہ اگلے تین گھنٹوں کے لیے آپ نہ کلینگ اسٹاف ہیں نہ کمپنی ڈائریکٹر۔ آپ ہر لحاظ سے برابر ہیں۔لیکن بعض اوقات طاقت کا غیر مساوی ہونا اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ Might is Right (جس کی لاٹھی اس کی بھینس) کا اصول چلتا ہے۔ دیکھ لیں غزہ میں کیا ہو رہا ہے جہاں طاقت کا توازن ایک فریق کے حق میں انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ لوگ مکافات عمل کوبھول جاتے ہیں۔طاقتور کو باور کرانا ہوتا ہے اس قدر نا انصافی آپ کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک ٹیکنیکWINBIکی ہے۔ یعنی What is in your best interest۔ طاقتور کو بتانا پڑتا ہے کہWhat is in your true interest۔ مثلا اگر آپ ایک طاقتور کو سپورٹ کرتے رہے تو کل الیکشن میں ینگ لوگ آپ کے خلاف جا رہے ہوں گے، آپ کو الیکشن میں شکست ہو سکتی ہے۔ لوگ آپ سے مایوس ہو سکتے ہیں اور کسی ٹرمپ جیسے کو چن سکتے ہیں۔ تو طاقتور کو اپنے فریق کی وقتی کمزوری پر فیصلہ کرنے کے بجائے دورس نتائج پر نظر رکھنا چاہیے۔سکندر ابوالخیر کے دوسرے سوال کا تعلق ڈرامہ نویس کے ذاتی جھکاو ¿ سے متعلق تھا۔ جیسے حسینہ معین اور خلیل الرحمٰن قمر کے ڈرامے۔ شاہد اختر صاحب نے فرمایا کہ ڈاکٹر یونس اور حسینہ معین کے ڈراموں کی انٹرپرٹیشن میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ یہ اچھی بات ہے کہ وہ اپنے فکری جھکاو ¿ کے ساتھ لکھتے ہیں۔ وہ آپ کو تبلیغ کرنے نہیں بلکہ اپنےخود اظہاریے کے لیے آئے ہیں جو بہت ہی موضوعی(subjective)چیز ہے۔ ڈاکٹر یونس وہ کہ ہی نہیں سکتا جو حسینہ معین کہنا چاہتی ہیں اور قاری کو بھی اختیار ہے وہ جیسے چاہے اس کیتشریح کرے۔
اربابِ قلم کے انور کاظمی صاحب کا سوال معاشرے پر مکالمے کے اثرات سے متعلق تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ معاشرے میں مکالمے کی عدم موجودگی کے اثرات پاکستان کے کسی چینل کو دو دن دیکھنے سے لگا سکتے ہیں۔ they are trying to out shout each other گالی گلوچ سے ہاتھا پائی تک عام ہے جو معاشرے کے زوال کی علامت ہے۔مکالمہ گفتگو ہے، جب تک آپ مکالمہ نہیں کریں گے، دوسرے کو کیا پتہ چلے گا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ آپ جو چاہتے ہیں اس کا اظہار کیجیے۔میں شادی شدہ جوڑوں سے التجا کرتا ہوں کہ خدارا ایک دوسرے کا mind پڑھنے کی کوشش کے بجائے اپنا خیال پیش کیجیے۔ but be blunt کہ مسئلہ ہے کیا۔بجائے پہیلیاں ب ±جھوانے کے، بجائے یہ کہنے کے کہ آپ کو اندازہ کیوں نہیں ہوا کہ میں کیا چاہتا تھایاچاہتی تھی، بعض اوقات آپ کو خود نہیں پتہ ہوتا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ کسی کی بات سن کر اسے اس طرح دہرائیں، کہ میں نے آپ کی بات سے یہ سمجھا ہے، کیا یہ درست ہے؟ اگر وہ کہیں کہ ہاں یہ ٹھیک سمجھا ہے تو آگے بڑھیں۔ ”دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا/ میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے“
اس موقع پر فیصل عظیم نے حاضرین محفل کو سوال کرنے کی دعوت دی۔ ڈاکٹر بلند اقبال نے مختلف معاشروں میں مباحثےکومکالمے کی اساس قرار دیا اور پھر مذہبی سوسائٹی کا اظہار کیا جہاں یہ ناپید ہے اور پوچھا کیا بند معاشرے کو ڈائلاگ میں لانے کے لیے کوئی ڈھانچہ بنایا جا سکتا ہے۔ شاہد اختر صاحب نے اس موقع پر debate اور dialogueکا فرق دوبارہ واضح کیاکہ بحث میں آپ کا ایک نقطہ نظر ہوتا ہے، آپ دوسرے کو قائل کر کے مقابلہ جیتنا چاہتے ہیں۔ یہ اسکول اور کالج کے لیے فائدہ مند ہے اس سے بچے اعتماد اورpublic speaking سیکھتے ہیں۔مگر اس کا استعمال کسی مسئلے کے حل کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہارنے والے کے اندر مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ایک زمانہ میں ہمارے ہاں مناظرے ہوا کرتے تھے۔ خدا کے ہونے نہ ہونے پر اور طرح طرح کے بے سود اور خرافات قسم کے مناظرے ہوتے تھے۔اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی یہ کوششیں بہتر نتائج حاصل کر سکیں گی تو کریں، اگر سمجھیں کہ اس کا نتیجہ الٹا ہو گا تو نہ کریں۔
روشن خیال نے پوچھا کہ جب سوال و جواب موجود ہیں تو مکالمے کی کیا ضرورت ہے۔جواب میں فرمایا کہ مکالمہ اور ڈائلاگ بڑی وسیع اصطلاحات ہیں۔ آپ کو خاموشی کی اہمیت کو بھی سمجھنا چاہیے۔ خاموشی بھی ایک طرح کی گفتار ہے۔ باڈی لینگویج بہت کچھ بول دیتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص کبھی نہیں مانے گا چاہے منہ سے کہہ رہا ہو کہ میں مانتا ہوں۔ ”خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری“۔ رشید ندیم نے ثنائ اللہ ظہیر کا شعر سنایا، ”میں دے رہا ہوں تجھے خود سے اختلاف کا حق/ یہ اختلاف کا حق ہے، مخالفت کا نہیں“ اور پوچھا کہمکالمے کو ذاتی لینا شروع کردیا جائے تو کیا کیجیے۔ شاہد اختر صاحب نے مثال دی امریکی سیاست کی جہاں اب بہت زہر بھر آیا ہے۔ پہلے رپبلکن اور ڈیموکریٹ تقریروں میں ایک دوسرے پر آگ اگلتے تھے مگر شام کو ایک ساتھ بیئر پیتے تھے اچھے دوستوں کی طرح۔اصول انسان کے لیے ہوتے ہیں، انسان اصول کے لیے نہیں ہوتے۔ بعض مرتبہ لوگ اصول کے لیے اپنا نقصان کر دیتے ہیں۔ آج کل امریکہ میں رپبلکن اور ڈیموکریٹ جوڑوں میں طلاقوں کی نوبت آچکی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
نورِ شمع نور کا سوال مزاحمتی شاعری اور اس کے اثرات سے متعلق تھا جس کے جواب میںشاہد اختر صاحب نے فرمایا کہVerbal aggression is also violence۔ ڈائیلاگ میں پر تشدد کمیونیکیشن نہیں ہونی چاہیے۔ جب اس قسم کا مسئلہ ہو تو ثالثی حاصل کرنے میں شرمانا نہیں چاہئے۔طارق حمید نے پروین شاکر کا شعر سنا کر شاہد اختر صاحب کی رائے دریافت کی، ”میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاو ¿ں گی/وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا“۔ شاہد صاحب نے کہا کہ یہاں بھی طاقت کے عدم توازنکا مسئلہ ہےمگر پھر بھی ”سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں/ ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں“۔ عورتوں کے حقوق کو ایک عرصہ لگا مگر آج کئی شعبوں میں خواتین لیڈ کر رہی ہیں۔شاہد ہاشمی صاحب کا سوال خاندان میں ایک آدھ سرپھرے کی موجودگی سے متعلق تھا۔ شاہد اختر صاحب نے فرمایا کہ انسانی رشتے سے بڑی کوئی بات نہیں ہوتی۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ آپ کا مفاد کس میں ہے۔ خاندانمیں مسائل کے لیے حقیقت جاننا ضروری ہے۔ فیملی کے ساتھ سرپھرے کی رعایت بھی لگا دیں اور وقت کے تقاضے پر اس کو پرکھیں Conciliate with facts۔
عبدالحمید حمیدی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ بچپن میں شرارت کے طور پہ ہم کہا کرتے تھے کہ ایسا لفظ بتائیں جو اللہ بھی بولے گا تو غلط ہی بولے گا۔ لفظ ”غلط“کو اللہ بھی غلط ہی بولے گا۔ مگر کچھ لوگاس پر بھی کہتے کہ یہ بے ادبی ہے۔ تو ان چیزوں میں اپنی زندگی برباد نہ کریں جس کی آپ کی زندگی میںاہمیتنہیں ہے۔ صرف پنگا لینے کے لیے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اپنی توجہ اس بات پر رکھیں جو اہم ہے۔سلمان اطہر نے ایک شعر سنا کر رائے مانگی، ”وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا/ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے“۔ شاہد صاحب نے جواب کی ابتدا بھی ایک شعر سے کی، ”سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی/ نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم“ اور کہا کہ آنکھوں کے اشارے اور لہجے سے پتہ چل جاتا ہے کہ آپ کی بات اچھی لگی ہے یا بری۔ کہنے کا انداز بھی body language کا حصہ ہے۔ اگر بات غلط ہو گئی ہے تو اسے رد کرنے کی فوری کوشش کیجئے ورنہ اندر اندر بات بڑھتی جائے گی۔
انور کاظمی صاحب نے مکالمے کی تربیت کی اہمیت کا پوچھا اور یہ کہ ہمارے یہاں اسے بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے تو جواب میں انھوں نے کہا کہ یقینی طور پر آج کے جیسی محفلوں کی ضرورت ہے جس میں آپ سیکھ سکیں۔ جہاں مکالمے کے آداب اور رویّوں کو سکھایا جائے۔ انھوں نے روشن خیال کے سوال پر یہ بھی کہا کہ مکالماتی شاعری صنف نہیں ہے مگر مکالماتی شاعری نے اردو میں بہت جگہ پائی ہے۔خالدہ نسیم صاحبہ نے ٹی وی پر غیر معیاری مکالموں پر رائے مانگی تو جواب میں فرمایا کہ outshouting دراصل violent communication کی ایک قسم ہے۔ یہ سب ریٹنگز بڑھانے کے حربے ہیں۔ مگر آپ کے پاس ریموٹ کنٹرول ہے، آپ پروگرام نہ دیکھیں۔زہرہ زبیری صاحبہ نے پوچھا کہ کیا آپکو سب کچھ کرنے کے بعد بھی کسی نے فرسٹریٹ کیا ہے تو کہنے لگے یہ تو ساری زندگی ہوتا رہا ہے اور ازراہِ تفنّن بولے (مسکراہٹ کے ساتھ) کہ گھر کی بات گھر تک رہے تو اچھا ہے جس سے سامنے بیٹھی ان کی بیگم صاحبہ سمیت سب محظوظ ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ آجکل جو ہو رہا ہے وہ بہت تکلیف دہ ہے کہ کوئی بضد ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح ہے، یہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔اگر میںطاقت کا گھمنڈدیکھتا ہوں تو میں underdog (کمزور) کے ساتھ ہوتا ہوں۔
حسین حیدر صاحب نے پوچھا کہ مکالمے میں روک ٹوک کو کیسے سنبھالا جائے۔ جواباً انھوں نے مذاق میں کہا کہDon’t talk when I am interrupting پھر وہ بولے کہyou can disagree without being disagreeable، سو بحث نہ کریں۔ لوگ مروت میں خاموش رہتے ہیں لیکن کوئی مسلسل بولے ہی جا رہا ہو تو اس کو روکا جائے۔بلند اقبال نے کہا کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو سمجھانا بے کار سمجھا جاتا ہے، پھر ڈائلاگ کا فائدہ کیا ہے۔ تو شاہد اختر صاحب نے فرمایا کہ پھر تو مجھے دو مرتبہ بےکار ہو جانا چاہیے تھا۔ جو درندگیمہذّبدنیا میں ہو رہی ہے پاکستان میں اس لیے نہیں ہو سکتی کہ وہاں مواقع نہیں ہیں۔پاکستان کے اخبارات سن48 سے لکھ رہے ہیں کہ ملک خطرناک ترین دور سے گزر رہا ہے۔بائیڈن کو وہی کرنا ہے جو کرنا ہے، غزہ میں وہی ہو رہا ہے جو ہونا ہے۔ آپ کی اگر دوسرے فریق سے بات ہو تو اس سے یہ کہیں کہ میں آپ سے نفرت نہیں کرتا۔ آپ کی آئیڈیالوجی سے متفق نہیں ہوں۔
I can be as miserable as next the, person but the planet doesn’t need another unhappy person۔اس موقع پر امان صدیقی صاحب نے کہا کہ کالج کے مذہبی اور سرخے بحث کرتے تھے مگر انھیں اپنے نظریے کی معلومات تک نہیں تھی۔ ایک اور شریکِ محفل نے کہا کہ ہم باہر ملکوں میں جا کر قطار میں کھڑے ہوتے ہیں مگر اپنے ملک میں نہیں۔
سلمان اطہر نے تبصرہ کیا کہ آجکل ہم ٹکسٹ میسیجز سے بات کرتے ہیں۔جواب ملا کہ”دھول دھپّا اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں / ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب پیش دستی ایکدن“ تو یہ کہ اس سے دھول دھپّے کی نوبت نہیں آتی۔انسانی فطرت تبدیل نہیں ہوتی، اوزار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اپنی روایات کے غلام بن کر نہ رہیں نئے طریقے اپنائیں، مکالمے کے سارے اصولوں کا جدید رابطوںپر بھی اطلاق ہوتا ہے۔سکندر ابوالخیر نے والدین اور اولاد کے درمیان مکالمے سے متعلق سوال کیا جس پر شاہد اختر صاحب نے فرمایا، ایک کہاوت ہے
Kids these days don’t listen to their parents They talk back and defy everything that we taught them۔
بتائیں یہ کس نے کہا تھا۔ یہ سقراط نے کہا تھا۔ تو اس سے اندازہ کر لیں کہ تب سے ہر نسل کے ابّا یہی کہتے آئے ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ آپ کے والد نے فرینڈشپ شروع کر دی تھی، ہم پر تو وہ نوبت بھی نہیں آئی۔
Your should in any situation have to face reality, you should know the facts and understand that you have limitations۔
ان پابندیوں کے ساتھ اپنیطاقت کو بھی سمجھ لیں۔ نئی نسل آپ سے ہمیشہ اختلاف کرے گی۔ ان کی ضروریات پوری کرنے میں بہترین انداز اپنائیں اور ان سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کریں،”جب توقع ہی اٹھ گئی غالب? / کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی“۔ آخری سوال زہرہ زبیری صاحبہ نے کام کرنے والی خواتین کی مشکلات کے بارے میں کیا جس پہشاہد اختر صاحب نے فرمایا کہ بےشک یہ پدرانہ سماج ہے مگر خواتین نے بہت زیادہ جست لگائی ہے۔ عجیب بات ہے کہ ٹرمپ کےحامیوں میں زیادہ خواتین ہیں۔بہرحال اسوقت شمالی امریکہ خواتین کے لیے بہترین جگہ ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے قانون بنائے گئے ہیں۔ خواتین کے ساتھ پرسنل ڈیلنگ میں ابھی کام باقی ہیں۔ مگر والدین مشکل میں ہیں کہ بچے 911 کال کردیتے ہیں۔
تقریب کے آخر میں فیصل عظیم نے شاہد اختر صاحب اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ بہت کارآمد محفل رہی جس میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ چائے سموسے اور جلیبی آخر تک دستیاب تھے جس سے اس اہم محفل کا لطف دوبالا ہو گیا۔