شاعر مشرق علامہ محمد اقبال اپنی شاعری اور مضامین کے ذریعے عوام و فکر کا ایک ایسا بیش قیمت سرمایہ چھوڑ گئے ہیں۔ جو صدیوں تک مسلم امہ کی نسلوں کو فیض یاب کرتا رہے گا۔ اقبال نے یوں ت اپنے کلام میں مسلمانان عالم سے خطاب کیا ہے مگر خصوصی طور پر جو پیغامات انہوں نے مسلمانان ہند کو دیئے اس نے انہیں حقیقی طور پر حکیم الامت کا درجہ دیا جو اپنی قوم کی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے انہیں زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے سبق یتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ ”جہاں ہے تیرے لئے، تو نہیں جہاں کے لئے“۔ اقبال نے مرد مومن کا جو تصور پیش کیا ہے وہ ذوق یقین رکھتے ہوئے اپنی نگاہ سے تقدیریں بدلنے کی قوت رکھتا ہے۔ اقبال کا مرد مومن شاہین صفت ہے جو اونچی اڑان پر یقین رکھتا ہے اور قصر سلطانی کے بجائے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور پھر اقبال اس کے ساتھ ”خودی“ کو اس کی انا اور تکبر کے حصار سے نکال کر ایک انتہائی مختلف زاویہ سے مسلمان کو اس سے متعارف کرواتے ہیں اور اس کو خودی کا پیغام دے کر خودشناسی پر مائل کرتے ہیں جس پر آگے چل کر انسان معرفت کے مراحل طے کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری ان تمام موضوعات کا احاطہ کرتی ہے جو کسی بھی قوم کے لئے مشعل راہ ہوتی ہے۔ ان کا تخلیقی عمل فکر کا ہم رکاب نظر آتا ہے جو انسانی نفسیات کی آگہی رکھتے ہوئے عشق، جمال پرستی، زندگی، سرمستی، علم، دین اور تمدن کے رموز وا کرتا ہے۔ اور انسان کو بلندیوں کی طرف قدم اٹھانے پر آمادہ کرتا ہے۔
سر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877ءکو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 21 اپریل 1938ءمیں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ اقبال ابتداءہی میں شمس العلماءمیر حسن جیسے استاد سے فیض یاب ہوئے جن کی وجہ سے انہیں فارسی، عربی اور اسلامی ادب کا شوق پیدا ہوا۔ فلسفہ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ انہوں نے تدریسی فرائض انجام دیئے۔ 1905ءمیں بیرسٹری کرنے کے لئے ولایت تشریف لے گئے۔ اسی دوران جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اقبال نے جرمن فلاسفر نطتے اور فرانس کے برگساں کے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا اس کے علاوہ ”رومی“ ”غزالی“، ابن سینا اور ابن عربی کو بھی گہرائی سے سمجھنے کا عمل اختیار کیا۔ یورپ میں ان کے قیام کے دوران کی شاعری اس کا برملا اظہار کرتی ہے کہ انہوں نے اس کا تعین کرلیا تھا کہ ملت اسلامیہ کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مسلم امہ کے شاندار ماضی کے مطالعہ اور اس کے مخدوش حال نے انہیں اس آگہی سے روشناس کیا اور کہ مسلمان اس وقت اپنا مستقبل بہتر کرنے کے لئے راستے بنانے سے قاصر نظر آرہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ یورپ سے واپسی کے بعد انہوں نے نہ صرف شاعری اور مضامین اور خطبات کو اس پر مرکوز کیا بلکہ عملی طور پر ہندوستانی مسلمانوں سے تعلق استوار کئے۔ 1930ءمیں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے خیال کے ساتھ ان کی شاعری نے ہندوستان میں ایک نئی سوچ اور فکر کے دروازے کھولے۔ جہاں مسلمانان ہند کو اپنے روشن مستقبل کی راہیں دکھائی دیں اور اس امر کے اشارے ملے کہ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کرنے کے بعد ہی نئے صبح و شام پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ اقبال کا کلام اس وقت کی نوجوان نسل کے لئے ایک مژدہ جانفرا ثابت ہوا۔
علامہ کی فکر و تعلیم نے انہیں ہر دور میں مسلمانوں کے لئے عصر حاضر کا شاعر تسلیم کروایا۔ مسلم امہ کے لئے جو خواب انہوں نے دیکھے تھے اور جو سبق انہوں نے نوجوانوں کو دیئے آج کا نوجوان ان تعلیمات کا ضرورت مند نظر آتا ہے۔ نئی نسل اس وقت ایک الجھن کا شکار نظر آتی ہے اپنی شناخت کا تعین کرنے میں مسلم امہ کے اطراف بددلی کا ایک ایسا ماحول رائج کردیا گیا ہے جس میں نئی نسل اپنے کو کمتر اور مجبور سمجھ کر اپنی اقدار سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ضرورت ہے اس وقت یہ سمجھنے کی کہ دیانت اور صداقت کا سبق دہرانے کا وقت ہے کہ
”نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہ ہی بے رخت سفر میر کارواں کیلئے“
اقبال نے نوجوانوں کے لئے جو پیغامات چھوڑے ہیں یہ وقت ہے کہ ان کو اس وقت عام کیا جائے نئی نسل کو اس آگاہی سے روشناس کروایا جائے کہ ان کے اختیار میں دنیا کی امامت اگر خودی کو سمجھ کر اپنے آپ سے ایماندار ہو کر صداقت کے راستے پر گامزن ہو جائیں تو وہ شاندار ماضی لوٹ سکتا ہے جو مسلمانوں سے منسوب ہے۔ تاریخ کے اوراق میں۔ جس قوم کو یقین محکم کا یہ پیغام دیا گیا ہو کہ
سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے
ناپید بحر تخیل کے کنارے
پہنچیں گے فلک تک بڑی آہوں کے شرارے
تعمیر خودی کر۔ اثر آہ ایسا دیکھ
وہ قوم بلندیوں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتی ہے۔ ضرورت صرف اس سبق کو پڑھا دینے کی ہے۔
183











