پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔ جس کا اعزاز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حصے میں آیا ہے۔ اس جنگ میں باقاعدہ کسی فریق کی شکست اور فتح کا اعلان تو نہیں کیا گیا مگر دونوں ہی ممالک اپنے طور پر اس کے نتائج کا تجزیہ کررہے ہیں۔
ممالک کی تاریخ میں کئی حقیقتیں ایک عرصہ کے بعد منکشف ہوتی ہیں۔ اور مورخ اوف تجزیہ کار اور محقیقین گمشدہ تفاصیل سامنے لائے ہیں کہ وہ کیا محرکات تھے جن کو بنیاد بنا کر یہ جنگ شروع کی گئی اور جو حقیقتیں اس وقوعہ کے وقت کے حکمران اور سیاستدان تہہ خانوں کی نذر کر دیتے ہیں مگر ان کی شہادتیں ہمیشہ تاریخ کے اوراق زندہ رکھتے ہیں۔ دوسری جنگ میں ہیرو شیما اور ناگاساکی کے راز اب کئی دہائیوں کے بعد منظر پر آشکار ہو رہے ہیں اور اقوام عالم میں معذرت ناموں کا سلسلہ جاری ہوا ہے پھر یہ بھی تجزیہ جاری رہتا ہے کہ وہ تمام اہداف ان تمام فریقین کو حاصل ہوئے یا نہیں جن کی وجہ سے دو ممالک ایک دوسرے سے برسر پیکار ہوئے۔ اسی طرح اس جنگ کے معاملات بھی کھلتے چلے جائیں گے۔
پاکستانی افواج نے بھارت کی پیش قدمی کا بھرپور طرح سے جواب دیا خاص کر پاک فضائیہ نے اپنے شاندار ماضی کا پاس رکھتے ہوئے ایک دفعہ پھر یہ ثابت کیا کہ وطن کی حفاظت اور دفاع کے معاملے میں وہ ایک انتہائی مضبوط ادارہ ہے۔ بحری اور بری افواج نے بھی اپنی مکمل صلاحیت کی مثال قائم کی جس کے عوض پاکستان آرمی چیف کو ترقی دے کر فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کردیا گیا ہے۔ پاکستانی قوم دفاع وطن کے لئے تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر فوج کے شانہ بہ شانہ کھڑی رہی۔ پاکستان کی موجودہ حکومت اس وقت بھی اپنے مخصوص عاجزانہ رویہ سے نکلنے میں ناکام رہی۔ تمام حکومتی اکابرین اور اراکین انتہائی کمزور اور غیر ذمہ دارانہ بیانات تک محدود رہے جس کا فائدہ بھارت نے پوری طرح اٹھایا۔ حکومتی جماعت کے سربراہ، وزیر اعظم اور ن لیگ کی پنجاب حکومت نے نریندر مودی اور بھارت کے خلاف کسی بھی قسم کا بیان دینے سے قاصر رہے۔
ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کو پاکستان سے جنگ شروع کرنے اور اس کے پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات پر ہر طرف سے شدید برہمی کا سامنا ہے۔ نہ صرف عوام بلکہ حکومتی ارکان کے ہمراہ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے بھی ان پر اعتراضات اور سوالات کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری رکھا ہے۔ مبصرین کے مطابق نریندر مودی کو یہ امید تھی کہ وہ پہلگام کی آڑ میں عالمی طور پر ہمدردی اور خیرسگالی کے حق دار سمجھے جائیں گے، ناکام ثابت ہوئی ہے جس نے ہندوستان کو نہ صرف جنگی نقصان بلکہ سفارتی طور پر بھی اس کی ساکھ کو گہرا خمیازہ اٹھانا پڑا ہے۔ خود مودی بطور وزیر اعظم گہری تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں جن کی وجہ سے ان کی مقبولیت کا گراف انتہائی نچلے درجے کی طرف جارہا ہے جس کا عکس آنے والے انتخابات میں نظر آئے گا۔
پاک بھارت کے اس معرکہ میں پاکستان کی ساکھ میں ایک بہتری کے اشارے مل رہے ہیں۔ پاکستانی فوج ویسے ہی دنیا کی چند بہترین افواج میں گنی جاتی ہے، اس وقت اس کی کارکردگی نے اس پر مہر ثابت کی ہے۔
امریکہ اور تمام دیگر ممالک اس وقت اس پر زور دے رہے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کو اب مذاکرات کے دروازے کھولنے چاہئے اور وہ تمام مسائل جو تنازعات کا باعث بنتے رہے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کو حل کرنے کی پیش رفت ہونی چاہئے۔ جس میں کشمیر سے لے کر طاس آبی معاہدہ سرفہرست ہے۔ دہشت گردی کے مسائل جن کا سامنا پاکستان اور بھارت دونوں اطراف میں ہے۔ دونوں ممالک اپنے یہاں ہونے والے واقعات کا الزام کئی دہائیوں سے ایک دوسرے پر عائد کرتے رہے ہیں جب کہ دونوں ممالک بخوبی اس سے آگاہ ہیں کہ اس کا ایک بڑا عنصر ان کی داخلی سیاست سے منسلک ہے اور حکومتیں خود اس دہشت گردی کی اتنی ہی ذمہ دار ہیں جتنا بیرونی ہاتھ کا ملوث ہونا۔
ہندوستان نے جنگ بندی کا اعلان ہوتے ہیں سفارتی طور پر اپنے کو محفوظ بنانے کے لئے اقدامات کا آغاز کردیا اور اپنے حکومتی اور سیاسی نمائندوں کے ہمراہ اپنے سول سوسائٹی کے افراد عالمی فورمز اور مختلف ممالک میں اپنی آئندہ کی پالیسیوں اور لائحہ عمل کے ساتھ اس جنگ سے متعلق اپنی پوزیشن ی وضاحت کے لئے روانہ کردیئے ہیں۔
پاکستان کو اس وقت انتہائی سنجیدگی سے اس تمام صورت حال کا جائزہ لینا ہو گا۔ پاکستان میں فی الحال ایک کمزور حکومت ہے، جس کے اظہار دوران جنگ بھی بیرونی دنیا کو ہو چکا ہے، کسی بھی ملک کی عسکری قوت اور اس کی کارروائیاں ریاست کے ایک ادارے کے طور پر سراہی جاتی ہیں جو کہ محض ایک دفاعی زمرے میں آتی ہیں۔ ریاست کو چلانے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، اس وقت جس طرح پاکستان کی حکومت اپنے سپہ سالار کی مدح خوانی میں مصروف ہے وہ عالمی طور پر پاکستان کو اور کمزور ثابت کررہی ہے۔ پاکستان ایک فوجی ریاست نہیں بلکہ ایک جمہوری مملکت ہے۔ اس کا احساس اگر حکومت پاکستانہ کر سکی تو پاک بھارت مذاکرات کا کوئی مثبت حل نہیں نکل سکے گا اور نہ ہی پاکستان کی کوئی حیثیت رہے گی۔ اس وقت پاکستان کو اشد ضرورت ہے کہ سول سفارتی لائحہ عمل کو اختیار کرنے کی تاکہ وہ ایک جمہوری حکومت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ پاکستان کسی طور بھی ہندوستان سے مذاکرات میں مکمل طور پر انگیج نہیں ہو سکے گا یا کسی بھی عالمی سیاسی پلیٹ فار پر مذاکرات نہیں کر پائے گا اگر اپنا تمام اختیار عکسری قوت کے ہاتھ میں دینے کا طریقہ رائج رکھے گا۔
کشمیر کا حل فوجی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق جمہوری اور سول حکومت کے ہاتھوں میں آئے گا۔ طاس آبی معاہدہ ہندوستان کے آبی ماہرین اور پاکستانی سول نمائندوں اور ورلڈ بینک کے مابین عمل میں آیا تھا اگر پاکستان نے عسکری چہرہ کو نمایاں رکھا تو دیگر فریق ان مذاکرات کا خیرمقدم نہیں کریں گے۔ ہندوستان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود عالمی طور پر ایک جمہوری حکومت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ کشمیر اور اپنے یہاں رہنے والی تمام اقلیتوں پر مظالم کے باوجود وہاں ایک منتخب جمہوری حکومت رائج رہتی ہے۔ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات عالمی ذرائع ابلاغ کا محور ہیں جہاں نہ صرف سیاسی بلکہ مذہبی علمائ، صحافیوں اور ابلاغ سے متعلق افراد پر مظالم بھی ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ اس وقت اگر مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہے تو سول حکومت کو ذمہ داری اٹھانی ہوگی۔ سفارتی حلقوں میں سول سوسائٹی سے مفکرین اور صاحب علم افراد کو شامل کرنا ہو گا تاکہ پاکستان ایک جمہوری تناظر میں دیکھا جا سکے۔
اس وقت ضروری نہیں کہ ہندوستان جنگ بندی کی طرف مائل رہے اور اس کا احترام ملحوظ خاطر رکھے۔ اسرائیل اور غزہ کی صورت حال سامنے ہیں۔ اسرائیل نے کسی بھی پابندی کو قبول کرنے سے گریز کیا ہے۔ بھارت جنوبی ایشیا میں ایک مستحکم حیثیت رکھا ہے بلکہ عالمی طور پر بھی۔ ضروری نہیں اس زعم میں وہ جنگ بندی کا پابند رہے اسی سلسلے میں امکان یہ ہی ہے کہ اس نے سفارتی طور پر اپنا مطمع نظر ثابت کرنے کے لئے ابتدائی کردی ہے۔ پاکستان کو انتہائی سمجھداری سے کام لینا ہوگا۔ عسکری معرکہ ہمیشہ ریاست کے استحکام کی بنیاد نہیں بنتا بلکہ ایک جمہوری حکومت جو تمام معاملات کو اپنے طور پر سیاسی انداز میں حل کر سکے، ریاست کو مستحکم رکھنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
126











