بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
مرزا غالب کا یہ شعر بدنصیب پاکستان کی اس وقت پوری طرح سے ترجمانی کررہا ہے، روز ایک نئی قیامت قانون اور جمہوریت میں لپیٹ کر تحریک انصاف پر ڈھائی جارہی ہے۔ قانون کی بالادستی کے داعیوں پر خود قانون کے ذریعے ہی جبر کیا جارہا ہے۔ پہلے 8 فروری 2024ءکا الیکشن عوامی مینڈیٹ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے چھینا گیا اور اس کے بعد رہی سہی کسر 9 مئی کے ایک فلیگ آپریشن سے پوری کردی گئی یعنی پاکستانی نائن الیون کے ذریعے اس کی بینی فشری خود حکمراں رہے اور سارے کا سارا نقصان ہی حقیقی آزادی کے طلب گاروں اس کے متوالوں اور قانون کی بالادستی کے خواہش مندوں کو اٹھانا پڑا اور اب اسی بے بنیاد مقدمے میں اپنی عدالتوں سے تحریک انصاف کے اراکین کو سزائیں دلوا کر ان کی نشستیں خالی کروائی گئی ایک بڑی عوامی جماعت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے کس طرح سے قانون اور جمہوریت کو گھر کی لونڈی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ کھلی ڈکیتی کھلی بدمعاشی اور غنڈہ گردی نہیں تو اور کیا ہے اس پر بھی اگر پاکستانی میڈیا اس فسطائی نظام کا سپورٹر ہے، ان کا سہولت کار ہے تو پھر ہزار بار لعنت ڈالیے اس طرح کی صحافت پر جو صحافت کے نام پر بدنما دھبہ ہے اور یہ ضمیر فروشی اور قلم فروشی کے زمرے میں آتی ہے جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس طرح کی کھلی غنڈہ گردی کرکے دنیا بھر میں خود پاکستان کو رسوا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کو سرعام میں رسوا کیا جارہا ہے اور یہ ثابت کیا جارہا ہے کہ پاکستان میں ون مین شو ہے یعنی طاقت کا سر چشمہ ملک کے 30 کروڑ عوام نہیں بلکہ ایک شخص ہے پوری پارلیمنٹ سمیت ملک کے تمام ادارے بشمول سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ان کا طواف کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں کوئی ایک بھی اپنے عہدے پر رہ نہیں سکتا۔ پرانی شراب اور نئی بوتل والی صورتحال بدقسمت پاکستان کی بن چکی ہے۔ تاریخ ایک بار پھر خود کو دھرا رہی ہے مگر وہ تاریخ بہت ہی خوفناک اور خونی ہے۔ صدمات سے بھری پڑی ہے، نہ جانے دھرائی جانے والی یہ تاریخ اب اس بدقسمت پاکستان سے کس قسم کی قربانی لینا چاہتی ہے کیونکہ پاکستان اب اور کسی تاریخی صدمے یا کسی بھی طرح کے قربانی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ سب کچھ بہت ہی دکھ اور درد سہہ کر لکھ رہا ہوں۔ اس لئے کے جنرل رانی منظرعام پر آگئی ہے اور ان کے ناز نخرے اٹھانے والا سپاہی بھی آگیا ہے اور اب فرمائشوں پر مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں اور اپنوں کو نوازے جانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ جنرل رانی اب اپنی اور ترقی چاہتی ہے اور آگے بڑھنا چاہتی ہے اپنی راہ کے تمام کانٹوں کو وہ ایک ایک کرکے نکالنے کے لئے کوششیں کررہی ہے۔ 9 مئی کے جھوٹے مقدمے کے اس جال سے اپنے تمام مخالف ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹرز کو گھیر کر ان کی نشستوں پر اپنے لاڈلوں کو لا کر اپنی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ملک میں کوئی جمہوریت نہیں بلکہ آمریت ہے۔ اس کے باوجود دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے صرف اپنی فیس سیونگ کے لئے دو نمبر کی جارہی ہے۔ ویسے ہی پورے پی ٹی آئی کو کالعدم کردیں، اس پر دہشت گردوں کی تنظیم کا الزام لگا کر بند کردیں ایک ہی جھٹکے میں 80 سے زائد ایم این ایز سے جان چھوٹ جائے گی اگر وہ ایسا کرلیں تو کون ہے جو انہیں روکے گا۔ ٹوکے گا۔۔۔ کوئی بھی تو نہیں؟ پھر اس سارے ڈرامے بازی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان میں کب عوام کے خواہشات کا احترام کیا گیا ہے یہ سب آزاد اور جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے پاکستان ایک کالونی ہے، غلام ملک ہے، اب اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا۔ 14 اگست جشن آزادی ہم خود کو دھوکہ دینے کے لئے مناتے ہیں۔ اسے منانے کی نہیں بلکہ اس دن اپنے غلامی پر ماتم کرنے کی ضرورت ہے کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم اپنوں کی غلامی میں چلے گئے جس کی وجہ سے پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم نہ ہو سکی۔
