Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
ایکسٹینشن اور سیاسی بحران 103

ایک سوری کی ضرورت ہے؟

بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کے منہ سے سچ نکل ہی جاتا ہے، بالکل اسی طرح سے پاکستانی حکمرانوں کی سوئی اس وقت ”ایک سوری“ پر اٹکی ہے، انہیں اڈیالہ جیل سے صرف ”ایک سوری“ کی صدا درکار ہے۔ وہ ایک سوری سننے کے لئے بے تاب ہیں، جس سے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے ان کا اصولی موقف یہ ہے کہ وہ کس بات پر سوری کرے، اس نے کونسی غلطی کی ہے؟ کون سی خطا کی ہے؟ کون سا جرم ان سے سرزد ہوا ہے؟ جس کے لئے وہ بادشاہ سلامت سے سوری کرے، یعنی جس نے غلطی کی ہے جو گناہ گار ہے، جو مجرم ہے، وہ دوسرے سے سوری کروانے کا خواہش مند ہے اور بضد ہے، سوری کرنے پر ان کی جیل سے رہائی ممکن ہے؟ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قیدی 804 کو قانون کی خلاف ورزی پر نہیں بلکہ کسی کی ضد یا پھر کسی کی خواہش پر ہی اتنے عرصے سے جیل میں رکھا گیا ہے اور کسی کی خواہش یا ضد پر ہی پورا سسٹم ایک بے گناہ شخص کو اس ملک اور اس کے رہنے والے 25 کروڑ عوام کی خدمت کرنے اور ان کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں جھوٹے مقدمات میں سزائیں دینے پر مجبور ہے…. قیدی نمبر 804 سے ”سوری“ درکار ہے کیونکہ انہوں نے ان پس پردہ حکمرانوں کو آئینہ دکھاتے ہوئے انہیں میر جعفر اور میر صادق جیسے غداران وطن کے خطابات سے پوری قوم کے روبرو نوازا تھا اگر قیدی نمبر 804 کے یہ القابات واقعی حقائق کے منافی ہیں، حالات اور واقعات سے مطابقت نہیں رکھتے، انہوں نے بہتان تراشی کی تھی، دشمنوں کے کام کو آسان کردیا تھا، تب تو واقعی ان کا یہ جرم یہ غلطی ناقابل معافی ہے، اس پر صر سوری کرنے سے جان چھوٹتی ہے تو وقت ضائع کئے بغیر ہی انہیں سوری کرلینی چاہئے۔ لیکن انہوں نے جو کچھ کیا وہ ان کی حکومت کو گرائے جانے اور اس کے بعد پیش آنے والے واقعات سے درست ثابت ہو گئے تو پھر انہیں بالکل بھی سوری کرنے کی ضرورت نہیں، چاہے اس میں جان بھی چلی جائے۔ تب بھی سوری کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس ایک سوری کی خواہش یا پھر مطالبے نے ان کی اصلیت پوری قوم پر اشکارہ کردی کہ کس طرح سے پاکستان کا پورا سسٹم ایک قیدی کے آگے لپٹ چکا ہے اس سے سوری کے مطالبے کا مطلب۔۔۔۔ سسٹم خود اس قیدی سے ایک طرح سے ہاتھ جوڑ کر سوری کررہا ہے کہ خدا کے واسطے ہمیں معافی دیدو اور ہماری جان چھوڑیں۔ہم تمہیں ڈرانے دھماکنے جھکانے اور توڑنے میں بہت ہی بری طرح سے ناکام ہو گئے ہیں پہلے ہمارا واسطہ کاغذی شیروں سے پڑا تا اور اب اصل شیر سے جس کی وجہ سے ہمیں معاف کردیں اور جیل سے باہر نکلیں۔۔۔
اس سوری میں یہ ہی سب کچھ مضمر ہے، سمجھ دار اور باشعور لوگ اس سوری اور اس کے اثرات کو خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کس طرح سے ایک قیدی 804 پر انصاف کے راستے بند کرنے کے لئے پاکستان کی پوری کی پوری عدلیہ کو گھر کی لونڈی بنایا گیا۔ چیف جسٹس کو اپنے محل کا درباری۔۔۔ قیدی 804 کی بڑھتی ہوئی شہرت کو ختم کرنے کے لئے فائر وال لگوائے گئے اور پورے کے پورے میڈیا کو کنٹرول کیا گیا اور بہت سارے صحافیوں کے وارے نیارے ہو گئے اور بہت سو کو ملک سے بھاگنا پڑا اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا تو اب حکمرانوں کی سوئی ”ایک سوری“ پر اٹک گئی ہے۔
پورے سسٹم کو لگتا ہے سوری فوبیا ہو گیا ہے جیسے سوری کئے بغیر ان کے جرائم اور گناہ ختم نہیں ہو سکتے۔ اپنے گناہوں کے لئے انہیں ایک قیدی کی سوری کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ اندازہ لگائیں حالات اور وقت کے انتقام کا۔۔۔ کہ وقت اور حالات وقت کے فرعونوں کو کس طرح سے اپنے ہی ہاتھ سے باندھے ہوئے قیدیوں کے آگے بھی جھکنے پر مجبور کر دیتا ہے، اسے کہتے ہیں قدرت کا انتقام، جس کی ابھی تو شروعات ہوئی ہے۔
کہتے ہیں بقول میر تقی میر کے
ابتداءعشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں