امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے جاری کئے گئے 20 نکاتی ایجنڈے اور حماس کو 48 گھنٹے کی دھمکی کے بعد حماس کی طرف سے مذاکرات پر رضا مندی ظاہر کردی گئی ہے۔ یہ 20 نکات صدر ٹرمپ کی 8 مسلم ممالک جن میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، اردن، انڈونیشیا اور پاکستان شامل ہیں سے ملاقات اور اس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے بالمشافہ گفتگو کے بعد مرتب کئے گئے۔ گو کہ ان نکات کے منظر عام پر آنے کے بعد مسلم ممالک کی جانب سے یہ اشارے دیئے جارہے ہیں کہ یہ وہ تمام نکات نہیں جو ان کے سامنے زیر غور آئے تھے ابھی امن تک پہنچنے میں بہت مراحل باقی ہیں مگر یہ ایک انتہائی اہم قدم ضرور ہے امن کی طرف۔
2023ءمیں شروع ہونے والی اس جنگ میں 68 ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید کئے گئے۔ غزہ کا علاقہ کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا۔ ہر قسم کی امداد غزہ میں پہنچانے پر پابندی عائد کردی گئی حتیٰ کہ مقامی ہسپتالوں تک پر بمباری کی گئی، ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اسرائیل اور اس کے حلیف ہر قسم کے عالمی قوانین سے لاتعلق اس المیہ کو برپا کرنے میں شریک رہے، المیہ یہ ہے کہ اس تمام کے دوران تمام اسلامی ممالک فلسطین میں برپا ہونے والی اس قیامت کو خاموشی سے دیکھتے رہے، حالیہ اسلامی کانفرنس میں 50 سے زائد شرکاءکسی طور بھی امریکہ یا اسرائیل کے اس عمل کی نہ تو مذمت کر سکے اور نہ ہی کسی طور پر اثر انداز ہونے کی کوئی تجویز پر غور کر سکے۔ عالمی عدالت انصاف اسے genocide قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے جارحانہ کارروائیوں کو روکنے پر زور دیا جب کہ اقوام متحدہ اس سلسلے میں ایک ناکام اور کمزور ادارہ ثابت ہوا اور تاریخ کے ایک سیاہ ترین باب کو رقم ہوتے دیکھتا رہا، گزشتہ کچھ ایام میں اقوام عالم کے ضمیر کی آنکھیں کھلنا شروع ہوئیں، فلسطین کے ناگفتہ حالات پر، اور کئی مغربی ممالک نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا آغاز کیا۔
موجودہ امریکی صدر خود کو امن کا داعی ہونے کے باوجود مکمل طور پر اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کو اس کے دفاعی حق سے تعبیر کرتے رہے جس کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل نے ایران اور قطر پر حملہ کیا اس سے قبل پچھلے صدارتی دور میں جوبائیڈن کی حکومت کے دوران اسرائیل نے شام اور لبنان پر حملے جاری رکھے۔ اور اس کا حلیف امریکہ مستقل سلامی کونسل کے اجلاس میں ویٹو کا استعمال کرتا رہا جنگ بندی کے خلاف۔
ان موجودہ 20 نکات کو عالمی طور پر اس تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے کہ امریکہ، اسرائیل کی طرف داری کرتے ہوئے اب سفارتی تنہائی کی طرف بڑھ رہا ہے گو کہ امریکہ عالمی طور پر اب بھی ایک کثیر تجارتی روابط رکھنے والا ملک ہے مگر اب اقوام عالم کی طرف سے یہ اشارے ملنے لگے اس کے دیگر ممالک اپنے مفادات اور دفاع کے لئے امریکہ کی طرف دیکھنے سے گریز کی فضا قائم کررہے ہیں۔
ٹرمپ کی طرف سے جاری کردہ یہ 20 نکات اسرائیل کی طرفداری کرتے نظر آتے ہیں اس میں فلسطین کی حتمی آزادی کی کوئی شق نظر نہیں آتی۔ سلامتی کی کوئی گارنٹی نظر نہیں آتی، اس میں سب سے پہلے اسرائیلی منصوبوں کی واپسی کی شرط رکھی گئی ہے جس کے بعد فلسطین قید خانوں سے آزاد کائے جائیں گے جو جنگ سے قبل اور جنگ کے دوران اسرائیل کے پاس ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی ایک کثیر تعداد شامل ہے۔ حماس کو ہتھیار سے دستبردار کرنا اور جنگ کے بعد انتظامی امور میں حماس کا کوئی کردار نہ ہونا۔ اسرائیل کا سکیورٹی زون میں اپنی افواج غزہ میں موجود رکھنا۔ اور ایک ایسی عبوری انتظامیہ کمیٹی تشکیل دینا جس کے سربراہ خود صدر ٹرمپ ہوں گے اور ان کی معاونت کے لئے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو نامزد کیا گیا ہے جن کی بابت تمام عرب ممالک میں بے شمار تحفظات ہیں اس کے علاوہ ایک ایسی فورس بھی ترتیب دی جائے گی جس کا کام یہ نگرانی کرنا ہو گا کہ کسی قسم کا اسلحہ بھی غزہ میں داخل نہ ہو سکے جب کہ اسرائیلی فوج کے غزہ سے انخلاءکی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی بلکہ اس کام کو مرحلہ وار پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
عالمی طور پر ان نکات پر حماس کے ردعل کو مثبت طور پر دیکھا جارہا ہے حماس نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ ان مذاکرات پر تیار ہے مگر اس کی تجاویز کو تمام نکات پر سننے کو یقینی بنایا جائے۔ مذاکرات کا سلسلہ مصر میں شروع کردیا گیا ہے جس میں حماس امریکہ اور عرب ممالک کے چند مندوبین شامل ہیں حماس کا نقطہ نظر وزن رکھا ہے کہ فلسطن سے نہ صرف اسرائیل کو مکمل طور پر انخلاءکیا جائے بلکہ تمام انتظامی امور میں فلسطنیوں کو شامل کیا جائے اور ان سے مشورہ کے بعد ہی اس کمیٹیوں کو مرتب کیا جائے۔ حماس ہمیشہ فلسطین کی مزاحمتی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے وہ یہ اعلان کر چکا ہے کہ اگر غزہ پر قبضوں کا سلسلہ ختم کردیا جائے تو وہ ہتھیار سے گریز کی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کو تیار ہے بظاہر ان نکات میں ابھی تک فلسطینیوں کے لئے کچھ ضمانتیں نظر نہیں آرہی ہیں یہ ایک ایسی معاہدہ نظر آرہا ہے جس میں اصل فریق جو اس جنگ میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کو شامل نہیںکیا گیا یعنی فلسطینیوں کی اکثریت۔ جنگ بندی کے بعد فلسطین کی تعمیر نو میں جن کا سب سے اہم کردار ہونا چاہئے اس معاہدہ میں اسرائیل پر شرائط عائد نہیں کی گئی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان تمام تجاویز پر اسرائیل یا نیتن یاہو کس ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اس وقت نہ صرف فسلطین بلکہ اسرائیل میں بھی امن کی خواہش رکھنے والوں میں امید کی کرن ابھر کر سامنے آئی۔ اسرائیلی مغویوں کی واپسی کا راستہ کھلنے کے امکانات ہوئے ہیں۔ یہ جنگ اسرائیلیوں کے لئے بھی شدید طور پر تھکن آمیز ہو چکی ہے۔ اسرائیل سفارتی طور پر مکمل طور پر تنہا ہو چکا ہے جس کا نقصان آنے والے وقت میں اسرائیلیوں کو دنیا میں ہر جگہ سے مشکلات سے دوچار کر سکتا ہے نیتن یاہو کی خودسری جس میں کسی بھی عالمی قانون کو نظر انداز کر دینا کے رویہ نے دنیا کی آبادی کو اسرائیلیوں کو ایک مخصوص انداز فکر سے دیکھنے پر مجبور کردیا ہے مگر نیتن یاہو اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے جس کے خلاف اسرائیل میں بھی اب تبصرے عام ہونے لگے ہیں ان نکات پر کتنی سنجیدگی سے غور کریں گے اس پر ابہام سامنے آرہے ہیں۔
اس جنگ میں دو سال مکمل ہونے پر عالمی ذرائع ابلاغ نے فلسطین پر گزرنے والے ہولناک حالات کا کھل کر مشاہدہ اور تبصرے کئے ہیں جس میں اسرائیلی بربریت کے تذکرے تفصیل سے بیان کئے ہیں۔
اس وقت عالمی طور پر تمام دھیان ان مذاکرات کی طرف ہے جس سے نہ صرف فلسطین بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں امن کے راستے کھل سکتے ہیں امن اور سلامتی کے راستے معروضی حالات کو حقیقت پسندانہ تناظر میں دیکھنے پر کھلتے ہیں تمام وہ ممالک جو مفاہمتی کردار ادا کررہے ہیں کی ذمہ داری ٹھہرتی ہے کہ دونوں فریقوں کی امن پر آمادگی کو سازگار بنائیں۔ مذاکرات کا آغاز ہونے کے بعد بھی اسرائیل کی طرف سے جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ کیا درپردہ کچھ یقین دہانیاں اسرائیل کو دیدی گئیں ہیں وہ کبھی فلسطین کی آزادی کا حامی نہیں رہا ہے اور اپنی موجودگی کسی نہ کسی طور کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔
فلسطینیوں کو اپنے تمام داخلی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر متحد ہونا پڑے گا ورنہ اس کا فائدہ یقینی طور پر دوسرا فریق اٹھائے گا۔ اور وقتی جنگ بندی کے بعد دوبارہ یہ سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ حمایس نے مذاکرات پر رضا مند ہو کر اس تمام صورت حال پر سنجیدگی کا لائحہ عمل اختیار کیا اور تمام مشکلات سے فلسطینیوں کو نکالنے کے عزم کا اشارہ دیا ہے۔ اس وقت کوئی بھی ایسا کمزور قدم نہیں اٹھنا چاہئے جہاں اسرائیل اپنی شرائط قبول کرنے کی پوزیشن میں آسکے، نیتن یاہو اس وقت اپنے مغویوں کی فکر کرتا نظر نہیں آتا وہ صرف اسرائیل کی توسیع کی فکر میں نظر آتا ہے۔ یہ وقت ایک خوش مستقبل کو محفوظ کرنے کا موقع دے رہا ہے۔ فلسطینیوں کو اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے صدر ٹرمپ نوبل امن ایوارڈ کے خواہشمند ہیں اس جنگ بندی میں ان کی اس خواہش کو بھی عالمی طور پر جانچا جا رہا ہے کہ وہ حقیقی طور پر مشرق وسطیٰ اور فلسطین میں امن چاہتے ہیں یا صرف یہ ایک وقت عمل ہو گا۔ حماس کے علاوہ مفاہمتی کردار ادا کرنے والوں کے لئے بھی اور خاص کر عرب ممالک پر انتہائی ذمہ داری ہے کہ اس عمل کو انتہائی باریک بینی اور سنجیدگی سے مشرق وسطیٰ کے لئے ایک پرامن مستقبل میں محفوظ کرلیں۔
