Notice: Undefined index: geoplugin_countryName in /home/pakistantimes/public_html/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
برباد گلستاں 8

برباد گلستاں

برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی اُلّو کافی تھا
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا
وطن عزیز کی تیزی سی بدلتی ہوئی صورتحال پر تو یہ شعر اس کے قیام کے بعد سے ہی صادق آنا شروع ہو چکا تھا، لگتا ہے معروف شاعر شوق بہرائچی نے یہ شعر یا پھر پوری غزل ہی پاکستان کی تباہ حالی اور بربادی کو دیکھ کر کہی ہو، ان دنوں تو یقین جانیے وطن عزیز کے ہر سرکاری محکمہ ہو یا پھر سیاست سمیت زندگی کا کوئی بھی شعبہ کیوں نہ ہو، وہاں اسی طرح کے اُلّوﺅں نے بسیرا کر رکھا ہے اور ایسے لگتا ہے کہ وہ اپنی بے وقوفی نادانی یا پھر ملک کے تباہی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے وطن عزیز کی صورتحال ان دنوں بہت ہی زیادہ خراب ہو گئی ہے ملک کو اس وقت بیک وقت ایک سے زیادہ سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، بیرونی طور سے زیادہ اندرونی طور پر پاکستان اس وقت بہت زیادہ کمزور ہو چکا ہے جس کے ذمہ دار سیاستدان ہیں جو ذاتی مفاد کو ملکی اور قومی مفاد پر ترجیح دینے کی کوششیں کررہے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی قوم بے راہ روی کا شکار ہو گئی ہے۔ سیاستدان اپنا اعتماد کھو چکے ہیں ان کے قول و فعل کا تضاد کھل کر سامنے آچکا ہے، عوام سے وعدے کرنا اور اس کے بعد بھول جانا اب ان سیاستدانوں کا ایک محبوب مشغلہ بن چکا ہے، عوام کے جانب سے اس طرح کے طوفا چشم سیاستدانوں کو انتخابات میں دھتکار دیئے جانے کے بعد ان ہی سیاستدانوں نے آمروں کی گود میں پانہ لینے کا سلسلہ شروع کردیا جس کی وجہ سے اب ایک اس طرح کی حکومت معرض وجود میں لائی گئی ہے جو نہ تو خچر ہے نہ ہی گدھا اور ہی گھوڑا۔۔۔۔ کم از کم وہ خود کو عوام کے آگے بالکل بھی جواب دی خود کو خیال نہیں کرتی ان ہی سیاستدانوں کی نا اہلی اور مجرمانہ غفلت و لاپرواہی اور اندھی کرپشن کی وجہ سے ملک مشکل میں آچکا ہے ملکی دفاعی ادارے بھی ان سیاستدانوں کی وجہ سے مشکل میں آگئے ہیں انہیں بھی اپنی بجائے دوسروں کے جنگوں کا حصہ بننا پڑتا ہے اور بار بار اپنے ہی پڑوسیوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں پرائی جنگ لڑنا پڑتی ہے یعنی ”کرے کوئی بھرے کوئی“ کے مصداق سیاستدانوں کے جرائم کی سزا ملکی اداروں کو بھگتنا پڑتی ہے جو کام سیاستدانوں کے کرنے کے ہیں انہیں دفاعی اداروں کے سربراہوں کو کرنا پڑتا ہے کیونکہ دوسرے ممالک کے سربراہ پاکستانی حکمرانوں پر بالکل بھی بھروسہ و اعتماد نہیں کرتے انہیں ضامن کے طور پر ملک کے دفاعی اداروں کے سربراہوں کی رضا مندی حاصل کرنا ہوتی ہے جو جمہوری روایات کے صریحاً خلاف ہے مگر ملکی معاملات کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے ملکی اداروں کو یہ کڑوا گھونٹ بھی پینا پڑ رہا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ان دنوں پاکستانی حکمرانوں کا کوئی ایک بھی غیر ملکی دورہ دفاعی اداروں کے سربراہوں کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہے کیونکہ دنیا کے کسی بھی مہذب اور جمہوری ملک میں اس کی کوئی نظیر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ کم از کم اپنے آس پاس کے ہی ملکوں پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملے گی اس کی وجہ ماسوائے پاکستانی سیاستدانوں کی نا اہلی اور دو نمبری کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہوں نے اپنے طرز حکمرانی میں اس طرح کی خلاءچھوڑ دی جسے غیر جمہوری قوتوں نے وقت ضائع کئے بغیر پُر کردی اور اب حکمرانوں کی پوزیشن پخ والی ہو گئی ہے، حکمرانی دراصل کوئی اور کررہا ہے بظاہر ڈالڈا جمہوریت ہے لیکن درحقیقت یہ بدترین آمریت ہے اور سونے پہ سہاگہ عالمی طاقتور نے بھی پاکستان کی اس طرح کی طرز حکمرانی کو قبول کرلیا ہے کیونکہ ان کے سارے مطالبے اور غیر قانونی غیر جمہوری فرمائشیں اس طرح کی طرز حکمرانی سے ہی حل ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں جنگ تو جنگ ہو جاتی ہے، وہ کہتے ہیں امن تو امن ہو جاتا ہے، لڑتے مرتے کوئی اور نوبل پرائز کے لئے ٹرمپ کو منتخب کروالیا جاتا ہے۔ اسی لئے تو کہتا ہوں ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں