4 نومبر 2025 کی شام امریکہ کے شہر نیویارک کے علاوہ بھی امریکہ کے لئے ایک تاریخی باب رقم کر گئی۔ بھارتی نژاد مسلمان امیدوار ظہران ممدانی نیویارک کے پہلے مسلم میئر منتخب ہوگئے، کئی دہائیوں کے بعد اس شہر میں رائے دہندگان کی اتنی کثیر تعداد ریکارڈ کی گئی۔ نیویارک کے شہریوں نے کئی دہائیوں سے حاوی اس کہنہ سیاست جس میں وہ تمام عوامل شامل تھے جو کسی طور ان کے لئے سود مند ثابت نہیں ہو سکے، کو رد کرتے ہوئے 34 سالہ ایک ایسے نئے میئر کو منتخب کرنے کا فیصلہ کرلیا جو پرانی سیاسی بازیگریوں کو جاری رکھنے کے بجائے ان کی روزمرہ کی زندگی کو آسان بنانے کی ضرورتوں پر متوجہ نظر آیا اور ایک جدید انداز سیاست جس میں حالات حاضرہ سے متاثر مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک مثبت طرز عمل کو اختیار کرنے کے وعدے کا اعلان کرتا رہا۔
نیویارک، ایک ایسا شہر جہاں ہر مذہب اور ہر قومیت سے تعلق رکھنے والے رہائش پذیر ہیں۔ اس وقت ظہران ممدانی کی فتح ووٹ کے جس تناسب سے ہوئی ہے اس نے تمام امریکنوں اور انتظامیہ سے متعلق تمام اداروں کو یہ باور کروادیا ہے کہ اب امریکہ کی سیاست میں ان لوگوں کا عمل دخل شروع ہو چکا ہے جو امراءاور موروثی سیاستدانوں کے بجائے عام شہری کہلاتے ہیں۔ ظہران کو کامیاب کروانے نیویارک میں مقیم ہر طبقہ کی نئی نسل نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے بلاتفریق زبان و مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہو کر اور یہ نئی نسل اب امریکی سیاست کو ایک نئے تناظر سے دیکھنے کی خواہشمند ہے۔
منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ظہران ممدانی نے یہ دعویٰ کیا کہ نیویارک مہاجروں کا شہر ہے اور اب ایک مہاجر ہی اس کی نگرانی کے لئے منتخب ہوئے ہیں اس تقریر میں ممدانی نے جواہر لال نہرو کی تقریر کے اقتباسات پڑھ کر سنائے۔
ظہران کو اپنی الیکشن مہم میں جہاں بے شمار ڈیموکریٹ سیاستدانوں کی طرف سے حوصلہ افزائی حاصل ہوئی وہیں ان کے خلاف ری پبلکن پارٹی کے علاوہ ان کی اپنی پارٹی میں بھی شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا مسلمان ہونا اور امریکہ کی اسرائیل سے معاونت کے متعلق ان کے بیانات بلکہ فلسطین کے معاملات کو زیر بحث لاتے ہوئے یہ اعلان کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم کو نیویارک آمد پر گرفتار کرنے کی امید رکھتے ہیں، نے نیویارک اور امریکہ میں بسنے والی یہودی لابی کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر ٹرمپ نے اس دھمکی کا اعلان کیا کہ اگر نیویارک کے شہریوں نے ممدانی کو میئر منتخب کیا تو انہیں وفاقی فنڈنگ میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مگر ان تمام مخالفتوں کے باوجود نیویارک نے انہیں فتح سے ہمکنار کیا۔
نیویارک ٹائمز کے سروے کے مطابق سیاسی مبصروں اور تجزیہ نگاروں کی طرف سے ممدانی کا انتخاب ایک اچھی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک سوشلسٹ ڈیموکریٹ کے طور پر متعارف کرتے ہوئے مسائل کے حل کی نشاندہی کررہے ہیں اس لئے اس فکر کا اظہار کئی اطراف سے کیا جارہا ہے کہ کہیں وہ تجارتی اور مالی شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے لئے کسی منفی طور پر اثر انداز نہ ہوں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نیویارک میں موجود ان شعبہ جات سے منسلک لوگوں نے مکمل طور پر ان کی تائید کرنے میں تجاہل سے کام لیا ہے اس کے علاوہ پولیس ریفارم اور تعلیم کے متعلق ان کی پالیسیوں پر فکر کا سلسلہ جاری ہے۔ نیویارک ایک مہنگا ترین شہر ہے۔ کم آمدنی والے افراد بھی یہاں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ممدانی نے جن سہولیات کا ان سے وعدہ کیا ہے وہ عملی جامہ پہنانے میں یقینی طور پر مشکلات سے بھرپور ہو ا یہ ذمہ داری عائد ہو گی کہ بہتری کی صورت میں کس طور پیش قدمی کرنی ہو گی ان کے مخالفین تمام تجربہ کار سیاستدان ہیں وہ ہر طرح ایک نئے میئر کو ناکام ثابت کرنے کے لئے کوشاں رہیں گے۔
ظہران ممدانی کے والدین ہندوستان سے تعلق رکھتے ہیں ان کی والدہ میرا نائیر ایک ادیبہ اور ہدایتکار کے طور پر پہچانی جاتی ہیں جب کہ ان کے والد گجرات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی شریک حیات شام سے تعلق رکھتی ہیں۔ ظہران کی پیدائش یوگنڈا میں ہوئی۔ سات سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ممدانی کے سیاسی کیریئر کا آغاز اس وقت ہوا جب انہوں نے ال یظیم کی انتخابی مہم میں مینجر کا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد 2020ءمیں نیویارک اسٹیٹ اسمبلی کے لئے الیکشن میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ اکتوبر 2024 میں انہوں نے میئر نیویارک کا انتخاب لڑنے کا ارادہ ظاہر کیا جون 2025 میں ڈیموکریٹک پرائمری میں انہوں نے سابق نیویارک گونر کیومو کو شکست دی۔ اور اب 4 نومبر 2025 میں کیومیو جو کہ آزاد امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور سلوا جو کہ ری پبلکن امیدوار تھے کو شکست دیتے ہوئے نیویارک کے میئر منتخب ہو گئے۔ اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے ایک نیا نظریہ رکھنے والا سیاستدان کے طور پر غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ وہ پہلے ساﺅتھ ایشین، پہلے مسلم میئر اور ڈیوڈ دن کنس کے بعد دوسرے ہیں جو اپنے کو شوشلسٹ کہتے ہیں ان کی حلف برداری یکم جنوری 2026 کو متوقع ہے۔
97











