پچھلے دنوں ایک اور اندوہناک خبر سنی کہ پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ کے صاحبزادے اُسامہ قمر ایک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ ان کے ساتھ ان کا ایک دوست حمزہ بٹ بھی جانبر نہ ہوسکا۔ بلاشبہ ایک باپ کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا رنج ہوگا، پورے گھرانے پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ کس حالت میں اور کس دُکھ سے جوان بیٹے کی میت کو کاندھا دیا ہوگا۔ ان کے اس درد کا کوئی مداوا نہیں ہے ایک باپ چاہے وہ کوئی سیاست دان ہو سرمایہ دار ہو یا کوئی غریب ہو، کوئی معمول آدمی ہو لیکن اولاد کے لئے وہ صرف ایک باپ کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے بیٹے کی جوان میت پر بہت مجبور لاچار اور دکھی ہوتا ہے۔ تمام زندگی بیٹے کی ہر خواہش پوری کرتا رہا لیکن آج اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتا۔ کائرہ صاحب کے بیٹے کے انتقال پر ملک بھر سے تعزیت کے پیغامات آئے چونکہ وہ پیپلزپارٹی کے اہم رہنما اور وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں لہذا سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ہر طرف سے سیاسی رہنماﺅں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے کائرہ صاحب کے لئے تعزیت کے پیغامات ریکارڈ کروائے اور ان کے بیٹے کے لئے مغفرت کی دعا کی۔
یہ حادثہ واقعی بے حد تکلیف دہ تھا لیکن ہماری قوم کے شعور اور کردار کا اندازہ لگائیں، میں کائرہ صاحب پر بالکل تنقید نہیں کررہا ہوں بلکہ صرف لوگوں کے رویے سے شکایت ہے کہ چونکہ کائرہ صاحب ایک مشہور سیاسی شخصیت ہیں لہذا ہر شخص تعزیت کے پیغامات میں اور مغفرت کی دعا میں صرف اسامہ قمر کا ذکر کررہا تھا۔ کیا دوسرا نوجوان اس کا دوست حمزہ بٹ دعائے مغفرت کا حق دار نہیں تھا۔ حمزہ بٹ کا ذکر کسی بھی سیاستدان یا کسی شخص نے نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ کسی نے یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ حمزہ کون تھا، کس کا بیٹا تھا، نہ اس کے والد کا کوئی فوٹو شائع ہوا، کیوں کہ حمزہ کا والد ایک عام آدمی تھا، کسی نے بھی اس کے آنسو پونچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی نہ ہی اس کے ساتھ تعزیت کے دو الفاظ ادا کئے۔ آخر ہمارے ذہنوں سے یہ غلامی یہ شخصیت کی پوجا کا اثر کب ختم ہوگا۔ بہرحال اس حادثے کی خبر سن کر مجھے اس طرح کے کئی حادثات یاد آگئے۔ تیز رفتاری کے سبب اور گاڑی چلاتے ہوئے ٹیلی فون پر میسیج بھیجتے ہوئے کئی نوجوان زندگی سے ہاتھ بیٹھے ہیں۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی باپ کے پیسے اور عہدے کا زعم بے جا لاڈ پیار کے باعث یہ نوجوان اپنی زندگی سے کھیل گئے۔
صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ باہر کے ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے بیٹے اس طرح کے حادثوں کا شکار ہو چکے ہیں ہم شکاگو میں کئی نوجوانوں کی میت کو کاندھا دے چکے ہیں۔حادثے تو کسی کے بھی ساتھ ہو سکتے ہیں لیکن اپنی جان کی حفاظت اور احتیاط بہت ضروری ہے اگر غور کریں تو ان حادثات کا شکار ہونے والے زیادہ تر نوجوان وہ تھے جو کسی سیاست دان، سرمایہ دار، یا بہت اثر و رسوخ رکھنے والے کاروباری حضرات کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان حادثات کے کسی حد تک ذمہ دار والدین ہیں جو اولاد کی بے جا خواہشات کو پورا کرتے ہوئے اس کے خطرے اس کی سنگینی کی طرف دھیان نہیں دیتے اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ بچوں کو نئی نئی گاڑیاں دلا کر اور ان کو لارپواہی سے چلانے پر نہ ٹوکنا کسی بڑے نقصان کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص شکایت بھی کرے کہ جناب آپ کا بیٹا بہت غلط اور لاپرواہی سے گاڑی چلاتا ہے تو برا مانتے ہیں۔ اور شکایت کرنے والے کی شامت آجاتی ہے یا پھر ہنس کر یہ کہا جاتا ہے ارے یار نوجوان ہے، جوانی میں تو یہ سب ہوتا ہے، ذرا بڑا ہو جائے گا تو سمجھ آ جائے گی لیکن بعض اوقات اس نوجوان کے مزید بڑا ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ دوسری بات یہ کہ کئی نوجوان اپنے باپ کے پیسے کا اس کے عہدے اثر و رسوخ کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کا باپ بہت پیسے اور اثر و رسوخ والا ہے۔ ہر شخص خاص طور پر چھوٹے علاقوں میں اس کو جانتا ہے لہذا یہ نوجوان بدتمیز بھی ہو جاتے ہیں اور ضد اور من مانی میں نہ صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔ ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی پولیس والا انہیں روکنے کی کوشش نہیں کرے گا اور اگر کوئی سر پھرا چالان کر بھی دے تو اس کی مصیبت آئے گی اور باپ چالان پھاڑ کر پھینک دے گا۔ وہ لاپرواہی سے گاری چلاتے ہیں کسی کی پرواہ نہیں کرتے اگر کوئی غریب ریڑھی والا سامنے آجائے تو اس کی پٹائی ہو جاتی ہے۔ میں موجودہ حادثے کو نہیں کہہ رہا ہوں، ایک حقیقت ہے جو بیان کررہا ہوں۔ اور اس وجہ سے کئی نوجوان اپنی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ فی الحال تو حالات کافی بدل چکے ہیں۔ اگر کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ کوئی اثر و رسوخ والا شخص کسی بے گناہ پر زیادتی کررہا ہوتا ہے تو لوگ فوراً ویڈیو بنالیتے ہیں، پہلے چونکہ یہ سہولت موجود نہ تھی تو بے شمار لوگ ان مظالم کا شکار ہوتے تھے۔ کم ہو گئے ہیں لیکن آج بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں، والدین کو چاہئے کہ وہ ضرور اپنے بچوں کی خواہشات پوری کریں لیکن ان کو ضدی، ہٹ دھرم اور مغرور نہ بنائیں، کیوں کہ اس سے خود ان کا نقصان ہے۔ جائز خواہشات اس حد تک پوری کریں کہ یہ خواہشات ان کے بچوں اور دوسرے بے گناہوں کے لئے عذاب نہ بنیں۔ یہ تو خیر حادثات کی بات تھی لیکن بے جا لاڈ پیار پیسے اور رتبے کے گھمنڈ میں نوجوان اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ شاہ رخ جتوئی کی طرح کسی کی بھی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ تعلقات اور اثر و رسوخ والے ہر جرح سے بچ جاتے ہیں لیکن یاد رکھیں یہ قدرت کا انصاف ہے کہ بے گناہوں پر ظلم کرنے والوں کو کہیں نہ کہیں سزا ضرور ملتی ہے۔
675











