287

آلودہ ترین پانی کو صاف کرنے والی کم خرچ پاکستانی سبز چٹائیاں

کراچی: پانی زندگی کا سرچشمہ ہے تو آلودہ پانی موت کا بھنور۔ ہمیں دورافتادہ سیاروں پر اگرزندگی ڈھونڈنی ہو، تو پہلے خلائے بسیط میں العطش کی آواز گونجتی ہے اور پانی کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ ہمارے جدید خلائی جہازوں کے کیمرے خیرہ ہوگئے اور طیف نگار چندھائے گئے ہیں لیکن زمین کے علاوہ اور کہیں پانی کا حتمی سراغ نہیں مل سکا۔
پاکستان میں ایک جانب تو صاف یا نیلے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہوکر بحرانی کیفیت کی جانب بڑھ رہے ہیں تو دوسری جانب آلودہ پانی کے تالاب پھیل کرایک عفریت بن چکے ہیں۔ اب پاکستانی ماہرین نے ایسی تیراک آب گاہیں بنائی ہیں جو آلودہ ترین پانی پر تیرتے ہوئے خودکار انداز میں گندے اور زہریلے پانی کو صاف کرتی رہتی ہیں۔ انہیں انگریزی میں ‘فلوٹنگ ٹریٹمنٹ ویٹ لینڈز’ یا ایف ٹی ڈبلیو کا نام دیا گیا ہے۔
یہ تحقیق ممتاز سائنسی جریدے نیچر سسٹین ایبلٹی کے سرورق پر شائع ہوئی ہے۔
کسی گدے کی طرح پودوں سے بھری یہ چٹائیاں نکاسی کا پانی، صنعتی مائع یہاں تک کہ تیل و گیس نکالتے دوران زہریلی دھاتوں اور ہائیڈروکاربنز سے بھرے آلودہ پانی کے گڑھوں کو بھی صاف کرسکتی ہے۔
فیصل آباد میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوی اینڈ جینیٹک انجینیئرنگ میں ڈاکٹر افضل کی نگرانی میں ایک ٹیم نے یہ کم خرچ چٹائیاں تیار کی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ ادارہ پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے تحت کام کرتا ہے۔ دوسری جانب جرمنی کے ہیم ہولز مرکز برائے ماحولیاتی تحقیق کے پروفیسر جوشن میولر اور ڈاکٹر محمد ارسلان بھی اس تحقیق میں شامل ہیں۔
مکمل پیمانے یعنی فل اسکیل پر تیاربہت سی ایف ڈی ڈبلیو کو فیصل آباد کے ایک ایسے جوہڑ میں آزمایا گیا ہے جس میں 60 فیصد پانی گھروں اور 40 فیصد پانی ٹیکسٹائل، کیمیا اور چمڑے کی صنعتوں کا تھا۔ طرح طرح کے آلودگیوں نے تالاب کو ٹیکنالوجی کی جانچ کے لیے ایک موزوں جگہ بنادیا تھا۔
دوسرے برس پیراک آب گاہوں کا جادو شروع ہوا اور پانی صاف ہونے کے تمام آثارظاہر ہوئے جنہیں تین درجوں میں بیان کیا جاسکتا ہے یعنی طبعی کیمیائی یعنی تیل، سلفیٹ، چکنائی اور دیگر حل شدہ ٹھوس اجزا میں کمی، دوم خردحیاتیاتی یعنی انسانی فضلے کے ذرات میں کمی اور سوم کیڈمیئم، کرومیئم، اور نِکل جیسی دھاتوں میں تخفیف واقع ہوئی۔ اس ٹیکنالوجی سے کیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (سی او ڈٰی) میں 79 فیصد، بایوکیمیکل آکسیجن ڈیمانڈ (بی اوڈی) میں 88 فیصد اور تمام حل شدہ ٹھوس اجسام (ٹی او ڈی) میں 65 فیصد کم ہوگئے۔
صاف یا الودہ پانی میں شامل قدرتی طور پر ختم ہونے والے یعنی بایوڈگریڈیبل یا نہ ختم ہونے والے نان بایوڈگریڈیبل اجزا کی کل مقدار کو سی او ڈی سے بیان کیا جاتا ہے جبکہ بی او ڈی میں حیاتی طور پر تلف ہوجانے والے اجزا کا شمار کیا جاتا ہے۔ کوئی پانی جتنا صاف ہوگا اس میں سی او ڈی اور بی او ڈی کی مقدار اتنی ہی کم ہوگی۔ پینے یا دوسرے صاف پانی میں ان کی مقدار عموماً صفر ہوتی ہے۔
اگرچہ ایف ٹی ڈبلیو دنیا بھر میں دستیاب اور زیرِ استعمال ہیں لیکن پاکستانی اختراع انتہائی کم خرچ ہونے کی بنا پر بازار سے 500 درجے سستی بھی ہے۔ گزشتہ چھ برس سے سبزے والی چٹائیوں نے مجموعی طور پر 57,947,400 مکعب میٹر آلودہ پانی صاف کیا جو 31000 سے زائد اولمپک سوئمنگ پول کے برابر ہے جبکہ چند پیسے فی مکعب میٹر کے اخراجات آئے ہیں۔
اپنی پائیداری کے بنا پر ایک سسٹم مزید 15 برس کے لیے قابلِ عمل رہ سکتا ہے جس سے لاگت میں مزید کمی واقع ہوگی۔
پاکستان اور آبی بحران
پاکستان میں پینے کے صاف پانی کی قلت ایک بحران کی جانب بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان ان تین ممالک میں شامل ہوگیا جہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی باعث پانی کی شدید قلت پیدا ہوسکتی ہے اور ورلڈ اکنامک فورم نے خبردی ہے کہ پانی کی کمی خود پاکستان کی اندرونی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
دوسری جانب پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (پی سی آر ڈبیو آر) نے خبردی تھی کہ 2025 تک پاکستان میں پینے کا پانی تیزی سے کم ہوکر انتہائی ناکافی ثابت ہوسکتا ہے۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی وطنِ عزیز میں پانی کی جتنے بھی ذخائر ہیں وہ ہماری غفلت سے گندے پانی کے ندیاں بن چکی ہیں اور ان میں اندھا دھند گندگی اور ٹھوس فضلہ ڈالا جارہا ہے۔ لیکن اگر بات آلودہ یا سیوریج کے پانی کی ہو تو یاد رہے کہ یہ پانی ٹھہر کر بھی اطراف کے ماحول کو آلودہ کرتا رہتا ہے اور باقی ماندہ پانی کو تیزی سے متاثر کرتا ہے خواہ وہ زمین پر ہو یا اس کےاندر۔ دوسری جانب ہمارے ہسپتالوں کے 80 فیصد بستر پانی سے پھیلنے والی کسی نہ کسی مرض سے متاثرہ بیماروں سے بھرے ہیں اور شرح اموات میں بھی گندے پانی کا حصہ 40 فیصد ہے۔
اس ضمن میں پاکستانی تیراک آب گاہیں کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ یہ ماحول دوست ہیں، خود سے کام کرتی ہیں اور انہیں چلانے کے لیے کسی بجلی یا انسانی مداخلت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
گندے پانی کا زراعت میں استعمال
ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان دنیا کے ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو 90 فیصد فصلوں کو نکاسی آب سے سیراب کرتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اول تو صاف پانی موجود نہیں اور دوم اس طرح سے فصلیں بہتر پیداوار دیتی ہیں۔ لیکن یہ درست بات نہیں ہے۔ یہ تحقیق 2017 کے اینوائرمینٹل ریسرچ لیٹرز کے ماہِ جولائی میں شائع ہوئی ہے۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ اس پانی سے کاشت کی جانے والی سبزیوں اور پھلوں میں بھاری دھاتیں، خطرناک بیکٹیریا اور کیڑے مکوڑے بھی ہوسکتے ہیں جو انسانی صحت کو شدید متاثر کرسکتےہیں۔
’اگرچہ آلودہ پانی میں بعض اجزا فصلوں کو بڑھاتے ہیں لیکن ان میں شامل بھاری دھاتیں نہ صرف مٹی بلکہ اناج کو آلودہ کرتی ہیں،‘ اس امر کا انکشاف ماحولیاتی ماہر اور انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کے کے سابق کنسلٹنٹ رفیع الحق نے کیا۔
2013 میں سیالکوٹ اور وزیرآباد مین ایک سروے جامعہ قائدِ اعظم کی ماحولیاتی لیبارٹری نے کیا تھا۔ ان دونوں اضلاع میں ٹیوب وھیل اورنکاسی کے پانی سے سیراب ہونے والی فصلوں کا موازنہ کیا گیا تھا۔
جامعہ نے گندم، مکئی، مولی، گاجر، بیگن، پالک، ادرک، پیاز، پودینے، دھنیے، شملہ مرچ اور بھنڈی وغیرہ کو تجربہ گاہ میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک نالے اور پلکھو نالے سے جن فصلوں کو پانی پہنچایا گیا ان میں کیڈمیئم، سیسہ، کرومیئم موجود تھا ، جبکہ پتے والی سبزیوں میں زہریلی بھاری دھاتوں کی یہ مقدار اجازت شدہ حد سے بھی زیادہ تھی!
اس کےبعد جب آغا خان یونیورسٹی میں کمیونٹی ہیلتھ کےپروفیسر ظفر احمد فاطمی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نےبتایا کہ کیڈمیئم دھات پھیپھڑوں اور گردوں کو شدید متاثر کرسکتی ہے اور بچوں اور بڑوں میں کمزور ہڈیوں اور فریکچر کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔
ڈاکٹر فاطمی نے کہا کہ ایک اور دھات نِکل بھی پانی میں پائی جاتی ہے جو امنیاتی، دماغی اور تولیدی عمل کو تباہ کرتی ہے اس لیے یہ بہت خطرناک ہے۔
اس ضمن میں ضروری ہے کہ پورے پاکستان میں سیوریج کے ذخائر کو صاف کیا جائے اور واضح رہے کہ فیصل آباد کے تجربے میں گندے تالاب کا پانی اطراف کی 70 فیصد زرعی اراضی میں ہی استعمال ہورہا تھا۔
ایف ٹی ڈبلیو کا احوال
ڈاکٹر افضل اور ان کے ساتھیوں نے پاکستانی میں فلوٹنگ ویٹ لینڈ کو ڈیزائن اورتیاردفدددددکیا ہے۔ اس کے کناروں پر المونیم کا فریم ہے جبکہ اندرونی طور پر پولی ایتھائلین انسولیشن رول لگائے گئے جو اسے تیرنے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے اندر سوراخ کرکے چار مقامی پودے اگائے گئے ہیں جن میں کامن ریڈ یا Phragmites australis سدرن کیٹیل Typha domingensis کلر گھاس یا Leptochloa fusca اور پیرا گراس یعنی Brachiaria mutica کی افزائش کی گئی ہے جن کی پانی صاف کرنے کی اہلیت ثابت شدہ ہے۔ کناروں پر گلاب کے پھول لگائے گئے تاکہ یہ مزید خوشگوار دکھائی دے۔
زہریلے ہائیڈروکاربن کا گڑھا
تیل ہو، گیس ہو یا کوئلہ اسے نکالتے ہوئے گندے پانی کا ذخیرہ جمع ہوجاتا ہے جس میں ہائیڈروکاربن کے سالمات، بھاری دھاتیں اور دیگر زہریلے مادے موجود ہوتے ہیں۔ ان پر بھی سبزہ چٹائیوں کو آزمایا گیا تو سی او ڈی، بی او ڈی، ٹی ڈی ایس ، ہائیڈروکاربن اجزا اور بھاری دھاتوں میں بالترتیب 97.4 فیصد، 98.9 فیصد، 82.4 فیصد، 99.1 فیصد اور 80 فیصد کمی واقع ہوئی۔
اس زہریلے ماحول میں بھی سارے پودے نہ صرف زندہ رہے بلکہ ان کی نشوونما بھی تیزی سے بڑھی۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی کےتالاب میں پرندے منڈلانے لگے اور مچھلیاں بھی پیدا ہوئیں جن سے سماں مزید قابلِ دید ہوگیا۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ ماحول دوست آب گاہوں کو بلوچستان سے لے کر گلگت بلتستان تک پر آزمایا جائے تاکہ پاکستان میں آبی آلودگی کم کی جاسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں