Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 656

اسلامی مملکت۔۔۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تب اللہ تعالی’ سے یہ دعا کی کہ اس شہر کو ہمیشہ آباد رکھنا اور اس شہر کو امن و امان والا شہر بنادے اور یہاں رہنے والوں کو ہمیشہ تمام نعمتیں عطا کرنا اللہ تعالی’ نے حضرت ابراہیم کی اس دعا کو قبول فرماتے ہوئے کہا کہ نغمتیں تو میں یہاں رہنے والے ان لوگوں کو بھی دوں گا جو دین سے منحرف ہوں گے جو کافر ہوں گے لیکن آہستہ آہستہ ان کو دوزخ کے راستے پر لے جاو¿ں گا۔آج کا عرب دور خلافت کے عرب سے بالکل مختلف ہے ۔عرب دو حصّوں میں تقسیم ہوچکے تھے حضری اور بدوی ہم جن لوگوں کو دیکھتے ہیں جن سے ہم واقف ہیں یہ سب حضری ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں ان کا پیشہ زراعت اور روز مرّہ کی اشیاءبنانا تھا بدوی وہ ہیں جن کو عرف عام میں بدّو کہا جاتا ہے ۔عرب کے اصل وارث یہی بدّو لوگ ہیں لیکن وہ حضری عربوں کی شرارتوں اور سازشوں سے تنگ آکر شہر سے دور غیرآباد پہاڑی علاقوں یا صحراو¿ں کے قریب اپنی آبادی بناکر رہتے ہیں ان کا کام مویشی پالنا ہے اور یہ مویشیوں کے دودھ سے مکھن ،پنیر دہی اور مختلف اشیاءبناکر بیچتے ہیں اور خود بھی استعمال کرتے ہیں۔ قبیلے کے افراد زیادہ تر اپنی پوری زندگی قبیلے میں ہی گزاردیتے ہیں صرف چند لوگ ایسے ہوتے ہین جن کا کام شہر جاکر اور قبیلے کے گھروں میں بنائی ہوئی اشیاءفروخت کرنا اور ضرورت کا سامان لے کر آنا ہوتا ہے۔ باقی قبیلے کے لوگ کبھی قبیلے سے باہر نہیں نکلتے۔ اردن کے پااڑی علاقوں میں کئی بدّو قبیلے آباد ہیں یہ تمام دنیا سے کٹے ہوئے ہیں انہوں نے کبھی باہر کی دنیا نہیں دیکھی ہے۔ بہرحال جب بھی مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ مسلمانوں کی بہادری،شجاعت،جواں مردی ،ایثار و قربانی سے بھری ہوئی ہے ،ان کہانیوں میں وہ داستانیں دفن ہوجاتی ہیں جنہیں تاریخ کا بدنما داغ کہنا چاہئے۔جو حقائق ہیں ان کو سامنے لانا چاہئے عبرت اور سبق کے لئے لیکن افسوس کہ حقائق سے پردہ پوشی کی جاتی ہے۔مسلمانوں کو کامیابیاں تو بہت ملیں۔لیکن ان ناکامیوں اور بربادیوں کا کوئی تذکرہ نہیں جو کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے ہی ملیں۔تاریخ گواہ ہے کہ جہاں جہاں مسلمانوں کو ناکامی یا بربادی کا منہ دیکھنا پڑا وہاں اپنے ہی لوگ دشمن اور غدّار نکلے۔اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔1191 میں سلطان صلاح الدّین ایّوبی کی انگریز بادشاہ رچرڈ سے شکست کے بعد اور آج تک مسلمانو ں کو جب بھی شکست ہوئی اپنے ہی لوگوں کی غدّاری کی وجہ سے ہوئی۔اس وقت کی اسلامی حکومتوں نے وعدہ کرنے کے باوجود صلاح الدّین ایّوبی کو فوجی امداد نہ بھیجی۔معتصم بااللہ کے دور میں بغداد آپس کی رنجشوں کا نشانہ بنا۔اور ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد اور وہاں قائم بیت الحکمہ کی تباہی ہوئی علم کی قیمتی کتابیں جلادی گئیں اور تمام فلسفی،سائنس دان،ریاضی دان اور اپنے اپنے علوم میں ماہر تمام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیاگیا۔ہندوستان پر حملہ کرنے والے اور اپنی حکومتیں قائم کرنے والے کئی مسلمان بادشاہوں نے اپنے خونی رشتوں کو قتل کرکے ہندوستان پر حکومت کی اور بعد میں اپنے ہی لوگوں کی سازشوں کا نشانہ بنے۔میر جعفر اور میر صادق کے نام تاریخ کے ماتھے پر نمایاں ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ ان ہی کے رشتے دار اسکندر مرزا نے ہمارے اوپر بڑی شان سے حکومت بھی کی۔ہندوستان کو انگریزوں سے نجات دلانے یعنی تحریک آزادی اور اس کے بعد تحریک پاکستان میں بے شمار سازشوں نے جنم لیا اور انگریزوں کے نمک خوار اور ان کی اولادیں بڑی شان سے پاکستان میں رہ رہی ہیں اور کچھ کے نام پاکستانی سیاست میں بھی نمایاں ہیں۔ آپ جدیدعربوں کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں تھوڑی بہت دوران خلافت اور خلافت کے ایک لمبے دور کے بعد بے شمار سازشیں ،غدّاریاں غیر مسلموں کے ساتھ مل کر اپنے لوگوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا غرض یہ کہ بہت ہی گھناو¿نی تاریخ ہے۔موجودہ تمام عرب بادشاہ یہاں کے مقامی نہیں ہیں انہوں نے اس سرزمین پر قبضہ کرکے یہاں اپنی بادشاہت قائم کی ہے ان کے لباس ان کی عبادتیں ان کی تسبیح سب دکھاوہ ہے۔چونکہ اللہ تعالی’ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھا کہ میں اس شہر اور یہاں کے رہنے والوں کو ہر نعمت سے مالا مال کردوں گا تو اللہ تعالی’ اپنے وعدے پر قائم ہے اب یہاں کے حکمران جو کچھ بھی کررہے ہیں اللہ تعالی’ نے ان کی رسّی ڈھیلی رکھی ہوئی ہے۔ہر وہ شہزادہ جو اپنی جوانی یوروپ اور امریکہ میں عیّاشی کرتے گزاردیتا ہے وہ بادشاہ یا کوئی وزیر بننے کے وقت اسلامی لبادہ اوڑھ لیتا ہے ہاتھ میں تسبیح آجاتی ہے داڑھی رکھ لیتا ہے اور اس کی آڑھ میں شکار کرتا رہتا ہے کسی عام آدمی کے پاس سے ڈرگ برآمد ہوجائے تو سزائے موت جب کہ شہزادوں کے کمروں میں ہر طرح کی ڈرگ اور شراب موجود ہوتی ہے زیادہ ڈرگ لینے کی وجہ سے کچھ شہزادے جوانی میں ہی چل بسے۔نماز کے وقت اگر دوکان بند نہیں کی یا نماز نہیں پڑھی تو کوڑے اور شہزادوں کی مغرب اور عشاءکا وقت یوروپ کے جوئے خانوں میں گزرتا ہے تمام اسلامی قانون صرف غریبوں کے لئے ہیں۔ عرب قوم صرف اس لئے مجبور ہے کہ عرب میں خانہ کعبہ ہے اگر خانہ کعبہ عرب میں نہ ہوتا تو یہ قوم عیّاشی اور فحاشی میں یوروپ کو پیچھے چھوڑ دیتی۔بہرحال آج جو کچھ ہورہا ہے وہ حیران کن نہیں ہے متحدہ عرب امارات کی طرف سے مودی کو ایوارڈ ،اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ ،عرب میں نائٹ کلب اور جوئے خانے کا قیام لیکن ہم اس بات پر طیش میں کیوں آئے ہیں ہم نے عرب سے اتنی توقعات کیوں رکھیں۔ہم زبردستی ان کو بھائی بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں جب کہ وہ پاکستانیوں کو بھکاری سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔انہوں نے مودی کو ایوارڈ دیا کیا وہ پاکستان کے ان وزیروں یا حکمرانوں کو ایوارڈ دیں گے جو ان سے دھوبی نائی باورچی اور خادموں کے اقامے بناکر بیٹھے ہیں کبھی ہم نے اپنے اوپر نظر ڈالی ہم ایک مغرور لالچی اور دھوکے بازقوم ہیں ہم سب ایک ہی حمام میں ننگے نہارہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ دنیا کو کوئی خبر نہیں ہے جب کہ اس حمام کی نہ چھت ہے نہ دیواریں ہیں ہم نے کھلے میدان کو حمام بنایا ہوا ہے ساری دنیا ہماری ایک ایک حرکت سے واقف ہے ہمارا میڈیا نام نہاد دانش وروں کو بٹھاکر سارا دن شور مچاتا ہے ایک دوسرے کی کرپشن چوریوں اور قتل و غارت گری کی داستانیں روز ساری دنان کو دکھائی جارہی ہیں۔چور سیاست دانوں نے قوم کو مغرور بنادیا ہے ہمیں اس دھوکے میں رکھا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں ہم سب سے برتر ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب سے بدتر قوم میں شمار ہوتے ہیں۔ہم صرف اس قرضے اور بھیک پر ابھی تک زندہ قوم ہیں جس کا تھوڑا حصّہ لگاکر باقی باہر کے بینکوں میں گیا اور ہم اسی میں خوش ہیں۔ اب ہم چراغ پا ہیں کہ مودی کو ایوارڈ کیوں دیا کیوں کہ ہمیں اس خوش فہمی میں رکھا گیا کہ ہم سب سے برتر ہیں جب کہ وہ لوگ خاموشی سے تعلیم ،صنعت اور ٹکنالوجی میں آگے بڑھتے رہے عرب کے وہ طالب علم جو کسی زمانے میں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر نے آتے تھے وہ سب انڈیا کی طرف منتقل ہوگئے کیوں کے بھٹّو کے زمانے میں جب رشوتوں اور سفارشوں کا سیلاب آیا تو یونیورسٹیز میں بھی بغیر رشوت اور سفارش کے داخلے ملنا بند ہوگئے ایسے حالات میں کوئی باہر کا طالب علم کیسے آتا وہ سب عربی انڈیا جاکر ڈاکٹر اور انجینئیرز بنے اور دوسرے کئی شعبوں میں ڈگریاں لیں وہ تو انڈیا کے گن گائیں گے۔دنیا کا کوئی بھی ملک ایسے ملک کو ایوارڈ دے گا جہاں جائز کام بھی بغیر رشوت کے نہیں ہوتا۔ہماری غلامانہہ ذہنیت نے ہمیں عربوں اور انگریزوں کی نظر میں مسکین اور بھکاری بنادیا ہے ہم ان کے ہاتھ چومتے ہیں ان کی تعریفیں کرتے ہماری زبان نہیں تھکتی لیکن اب اندازہ ہوگیا کہ ان کی نظر میں ہماری کیا اہمیت ہے ۔ہم اس گمان میں رہے کہ عرب ہمارے بھائی ہیں عرب کاروباری لوگ بن چکے ہیں وہ اسلامی بھائی نہیں کاروباری بھائی بناتے ہیں اور مودی کو انہوں نے اپنا کاروباری بھائی بنالیا ہے۔ دنیا سے ایوارڈ لینا ہے تو اپنے آپ کو ایک قوم بنانے کی کوشش کرو اس طرح سے رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں