امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 483

امریکی جمہوریت: دھرنے کا کلنک

چھِ جنوری ِ کی تاریخ امریکی کی جمہوری تاریخ میں سیاہ حاشیوں میں لکھی جائے گی۔ اور اب سالہا سال تک اس پر مضامین، جامعاتی مطالعات، قانونی نظیروں، اور کتابوں کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس روز صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پیارے دوست عمران خان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، امریکی جمہوریت کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں پہلی بار اپنے حواریوں کو امریکی جمہوریت کے گھر یا پارلیمان کی عمارت کا جسے Capitol کہتے ہیں، گھیراﺅ کرنے اور پھر اس پر حملہ کرنے پر اکسایا۔
امریکی صدر گزشتہ نومبر کے انتخابات میں اپنے حریف جو ?بائڈن سے چھہ ملین ووٹوں سے شکست کھاگئے تھے۔ اس کے بعد امریکی جمہویت کے ادارے، کلیہءانتخاب جسے Electoral کہتے ہیں، کے ووٹوں میں بھی ہار گئے تھے۔ لیکن پہلے ہی دن سے انہوں نے یہ شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے اور ان کے حواریوں نے یہ کہہ کر ہار ماننے سے انکار کر دیا کہ انتخابات مین بڑی دھاندلی ہوئی ہے۔
اس جھوٹ کو مصدقہ بنانے کے لیئے انہوں نے اور ان کے حامیوں نے ستر سے زیادہ مقدمات درج کر وائے۔ وہ ہر عدالت میں ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر اپنے مقدمے ہارتے رہے۔ ان عدالتوں میں ریاستی اعلیٰ عدالتیں اور امریکہ کی سپریم کورٹ بھی شامل ہے۔ تقریباً ہر ذیلی عدالت اور سپریم کورٹ میں خود ان کے نامزد کردہ ججوں نے ان کے خلاف فیصلے دیئے۔ جس پر انہوں نے عدالتوں پر بھی ناانصافی اور جانبداری کا الزام لگانے شروع کر دیے۔
آپ میں جن لوگون نے امریکی کانگریس کے گھیراﺅ اور حملے کے مناظر ٹی وی یا اپنے فونوں پر دیکھے ہوں گے، ان کے ذہنوں میں ،شاید بہتر جموری ممالک میں فرانس کے تاریخی انقلاب میں اس طرح کے حملے کی تصویریں ابھری ہوں گی۔ ہماری نظر میں تو عمران خان اور طاہر القادری کی قیادت میں پاکستان کی پارلیمان کا گھیراﺅ بھی تھا، اور مسلم لیگ کا عدالتوں پر حملہ بھی۔ امریکی شہریوں اور جمہوریت پرستوں کے لیئے پاکستان کی مثال شرم کا باعث ہوتی تو ہوگی۔
امریکی کانگریس پر اس شرمناک حملے کے بعد وہا ں نئے صدر کی توثیق کے عمل میں کم از کم چھ گھنٹے کا خلل پڑا۔ دہشت گرد حملہ آوروں نے عمارت میں تحس نحس پھیلائی، کانگریس کے رہنماﺅں کے دفتر وں پر قبضہ کیا۔ سرکار ی دستاویز ، کمپیوٹر، اور دیگر سامان لوٹا۔ حیران ک±ن بات یہ تھی کے ان حملہ آور جتھوں کو جن میں سفید فام شدت پرستوں کی بڑی تعداد موجود تھی، اس حملہ کے دوران کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بلکہ یہ بھی دیکھا گیا کہ خود عمارت اور اراکین کی حفاظت کے لیئے متعین بعض پولس والے، ان کی آمد کو آسان بنارہے تھے۔ عمارت میں بار آنسو گیس پھینی جاتی رہی۔ اس دوران پانچ افراد ہلاک بھی ہوئے جس میں ایک پولس والا بھی شامل ہے۔
تاریخ یہ بھی لکھے گی کہ اس حملہ اور صدارتی توثیق میں چھ سات گھنٹوں کی تاخیر کے بعد ان ہی عمارتوں میں جہاں ٹوٹے شیشے بکھر ے پڑے تھے ، کانگریس کے اراکین امریکی نائب صدر جیف پنس کی صدارت میں ایک دفعہ پھر جمع ہوئے۔ اور خود صدر ٹرمپ کی جماعت کی واضح اکثریت کی حمایت کے ساتھ ٹرمپ کے حریف اور منتخب صدر جوبائیڈن کے صدر بننے کی تصدیق کی گئی۔
جن لوگوں نے عمارت پر حملہ کیا تھا، ان کے سرغناﺅں نے واضح طور پر اعتراف کیا کہ وہ وہاں صدر اور ان کے ساتھیوں کے ایما اور ترغیب پر وہاں آئے تھے۔ اور صدر کی واضح شکست کے باوجود انہیں صدر بنانا چاہتے تھے۔ لیکن صدر ٹرمپ ذمہ داری نہیں مان رہے۔
اب تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ بیسیوں لوگ گرفتار ہو چکے ہیں ، اور سینکڑوں کی گرفتاری کا امکان ہے۔ صدر ٹرمپ نے سوشل میڈیا بالخصوصTwitter, Facebook, Instagram کے استعمال کی مہارت سے اپنے کروڑوں حامیوں کے ذہنوں کو متائثر کیا تھا۔ وہ ہٹلر کے ایک وزیر کے اس قول پر عمل کرتے تھے کہ بار بار اتنا جھوٹ بولتے رہو کہ وہ سچ مانا جانے لگا۔ اس جھوٹ کو جدید اصطلاح میں Fake News کہتے ہیں۔ سوشل میڈیا اس جھوٹ کو پھیلانے میں سب سے زیادہ مددگار تھا۔ اب اسی سوشل میڈیا نے صدر ٹرمپ پر کڑی پابندیا ں لگادی ہیں۔ یہ پابندیاں اظہار کی آزادی کی مباحث کو جنم دے رہی ہیں۔ ہماری ذاتی رائے میں مسلح بغاوت پر اکسانا آزادیءاظہار کی تعریفوں میں شامل نہیں ہے۔
فی الوقت امریکی پارلیمان صدر ٹرمپ پر بغاوت کا الزام عائد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کا نتیجہ ابھی واضح نہیں ہے۔ امریکی وفاقی اداروں کی یہ وارننگ یا تحذیر بھی گردش میں ہے کہ نئے صدر کے حلف کی تقریب کے وقت ایک بار پھر نہ صرف وفاقی پارلیمان بلکہ پچاس ریاستوں کے صوبائی ایوانوں پر حملے کیئے جائیں گے۔
امریکہ کو ایک بڑا مرحلہ درپیش ہے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر امریکہ خود اپنے ملک میں جمہوریت کی حفاظت نہیں کر سکتا تو آئندہ کم جمہوری ممالک میں جمہوریت کے فروغ کی بات کیسے کرے گا۔ یہ سوال تاریخ کا حصہ ہیں اور اب ہمیشہ دہرائے جائیں گے۔ اور شاید امریکی جمہوریت کے ماتھے سے کلنک کا داغ کبھی نہ مٹ پائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں