امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 601

امریکی صدر ٹرمپ: امریکی جمہوریت اور اقدار کو درپیش خطرات

امریکہ اب سے تقریباً تین سو سال پہلے اپنے قیام ہی سے دنیا کی ایک اہم ترین مثالی جمہوریت سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس کے قیام کے فوری بعد، سنہ سترہ سو نواسی میں، اس کا آئین ترتیب دیا گیا جس میں جمہوری اور انسانی حقوق کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس میں منظور کیئے گئے انسانی اور شہر ی حقوق اتنے اہم تھے کہ خود فرانس کی جمہوریت نے بھی جو خود ایک انقلاب کے نتیجہ میں قائم ہوئی تھی اس سے استفادہ کیا۔ اس آئین میں ہر آئین کی طرح کچھ بنیادی تعصبا ت اور کمزوریاں تھیں۔ جن کو درست کرنے کے لییے امریکہ کے جمہوری ر ہنما اورقانون ساز مسلسل اصولی جدو جہد کرتے رہے۔
امریکہ کا نظام حکومت پچاس ریاستوں پر مبنی ایک وفاق ہے۔ اس وفاق کا بنیادی اصول یہ ہے کہ امریکہ کے آئین میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کے لیئے ہر ریاست کی منظوری ضروری ہے۔ وفاق ، ریاستوں ، اور مقننہ یا انتطامیہ کے کسی بھی قضیہ کو دور کرنے کے لیئے وہاں کی سپریم کورٹ فیصلہ کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے اراکین کی تعیناتی کے لیئے صدر کی سفارش پر مقننہ کے دونوں اےوانوں کی منظوری لازم ہے۔گزشتہ تین سو سال میں اب تک صرف تینیس ترامیم کی گئیں۔ جن مین سے صرف ستائےس عمل میں آسکیں۔ باقی چھ پر ہر ریاست نے اتفاق نہیں کی۔
ان میں بعض ترامیم نے امریکی آئین کی خامیوں کو درست کیا، اور بعض کے نتیجہ میں سوالیہ نشان اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان میں ہماری رائے میں سے مثبت ترین، وہا ں غلامی کا خاتمہ ہے جو امریکہ کا قیام کے سو برس ہو سکا۔ دوسری ایک پریشا ن کن ترمیم وہاں شہریوں کا ہتھیار رکھنے کا ہم حق ہے۔ ان دونوں ترامیم کے منفی اثرات موجود ہیں۔ سیاہ فاموں کی غلامی کے خاتمہ اور وہاں مساوی حقوق کی دیگر ترامیم کے باوجود اب بھی سیاہ فام اور دیگر غیر سفید فام نچلے درجہ کے شہری ہیں۔ ان ترامیم کے امریکہ کے اس سال کے انتخاب پر اثر کے بارے میں آئندہ سطور میں پیش کریں گے۔
امریکہ میں باقاعدگی سے ہر چار سال کے بعد اتخابات منعقد ہوتے ہیں جن کے ذریعہ صدر، اور کانگریس کے دو ایوانوں کے ارکین کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ایساہر بالغ کے حقِ رائے دہی کے حق کے تحت کیا جا تا ہے۔ امریکی آئین کے تحت ا س میں ایک سقم یا ٹیڑھ ہے۔ وہ یہ کہ صدرکا انتخاب اکثریتی ووٹ کی تعدا د پر نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسا ایک انتخابی کالج Electoral College کے ارکین کے ووٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ انتخابات کے فوراً بعد ہر ریاست ان ووٹوں کی تعدادطے کرتی ہے۔فی الوقت ان ووٹو ں کی تعداس پانچ سو اڑتیس ہے۔ہر ریاست کو حاصل اس کالج کے ووٹوں کی تعداد وہاں کی آبادی کی بنیاد پر ہر دس سال میں طے کی جاتی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ اڑتالیس ریاستوں میں اس کے انتخابی کالج کے سارے ووٹ اس جماعت کے امیدوار کو چلے جاتے ہیں جس نے ان ریاست میں اکثریت حاصل کی۔دو ریاستوں مین طریقہ مختلف ہے۔
اس وقت موجودہ بڑی آبادی والی ریاستوں میں انتخابی کالج میں ووٹوں کی تعداد یوں ہے: کیلی فورنیا؛ پچپن، ٹیکساس؛ چھتیس، نیو یورک ؛ انتیس ؛فلوریڈا؛ انتیس، الی نوایئس؛ بیس، اور پنسلوانیا ؛ بیس۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہر انتخاب میں طاقت کا تواز ن ان ریاستوں کے ہاتھ میں ہیں جن کے کل ووٹ، ایک سو نواسی ہیں۔ کسی بھی صدر کو منتخب ہونے کے لیئے دو سو ستر ک±ل ووٹ درکار ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ صدر جارج ب±ش صرف فلوریڈ ا میں انتخابی کالج کے ک±ل ووٹ لے کے اپنے مخالف کے اکثریتی عوامی ووٹو ںکے باوجود جیت گئے تھے۔ گزشتہ انتخاب میں ہلیری کلنٹن بھی اکثریتی عوام ووٹ حاصل کر کے بھی ہار گئی تھیں۔
ہم نے اب سے پہلے غلامی سے آزادی اور ہتھیار رکھنے کی ترمیم کی بات کی تھی۔ آج ان میں شدید تصادم ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کے قدامت پرست ، سفید فام حامیوں نے سارا زور سیاہ فاموں کو ہر جرم کا ذمہ دار ہونے اور سیاہ فاموں کو قانون دشمن قرار دینے کی شدید مہم چلا رکھی ہے۔ سیا ہ فاموں پر پولس کے جبر اور بھیانک زیادتیوں کے نتیجہ میں نسلی تفریق اور بھی بڑھ گئی ہے۔ اس وقت لگتا ہے کہ سیاہ فاموں کی واضح اکثریت قدت معتدل امیدوار ، بایئڈن کے ساتھ ہے۔ صدر ٹرمپ اس سے خائف ہیں۔ ان کے حامیوں نے انتخاب کو ناکام قرار دینے اور ووٹوں کو ووٹوں سے محرم رکھنے کے وہ ہتھکنڈے استعامل کیے ہیں، جو صرف تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک میں نظر آتے ہیں۔
امریکہ میں ووٹ ڈاک سے بھی ڈالے جاتے ہیں۔ کل خبر آئی کہ ایک ریاست میں جگہ جگہ جعلی ووٹنگ صندوق پھیلا دیئے گئے، جن میں لوگو ں نے دانستہ یا دھوکے میں ووٹ ڈال دیئے۔جن کے نتیجہ میں ڈاک کے ووٹوں کا نظام مشتبہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک سنگین جرم ہے اور اس کی سخت سزا ہے۔ دراصل صدر ٹرمپ اور ان کے حامی چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ عدالتوں میں لٹکے اور انتخابات ناکام ہوں۔
دوسری طرف یہ ہو ا کہ تاریخ میں پہلی بار ایک متعصب سفید فام گروہ کی جانب سے امریکی ریاست مشی گن، اور ورجینیا کے گورنروں کو اغوا کرنے کی سازش کی گئی۔ جس کے نتیجہ میں کئی لوگ گرفتار ہے۔ قیاس ہے کہ یہ گروہ صدر ٹرمپ کے حمایتی ہیں۔ جب کہ دونوں گورنروں کا تعلق ان کی مخالف جماعت سے ہے اور دونوں نے کورونا وائرس ہر قابو کرنے کے لیئے پابندیا ں لگائی تھیں۔ صدرٹرمپ زورشورسے ہر جگہ ایسی پابندیوں کے خلاف ہیں۔ ان کی اس مخالفت کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ خود اور ان کے کئی حلیف اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ سازشیوں نے اپنے دو سو حامیوں کو مشی گن کی مقننہ پر حملہ کرنے کے لیئے اکسایا بھی تھا۔ لیکن وفاقی انٹیلی جنس نے یہ سازش ناکام بنادی۔ اب ملزمان پر سخت مقدمہ چلے گا جس کی سزا بھی سخت ہے۔
ہم نے امریکہ میں بندوق برداری کے حق کا ذکر کیا تھا۔ آج کل یہ ہو رہا ہے کہ صدرٹرمپ کے کئی جلسوں میں ان کے حامی ہتھیار اٹھا کر آرہے ہیں۔ اور صدر ان کی ستائش بھی کرتے ہیں۔ ان کے ایسے ہی کئی حامیوں نے سیاہ فاموں کے جلسوں کو درہم برہم کرنے کے لیئے ہتھیار بھی چلائے ہیں۔ خود صدر ٹرمپ اور ان کے حامی واضح طور پر اعلان کر چکے ہیں کہ وہ انتخاب کے نتائج کو آسانی سے تسلیم نہیں کریں گے، اور انہیں متنازع بنانے کا ہر حربہ استعمال کریں گے۔
ان سارے عوامل کی بنیاد پر آپ قیاس کر سکتے ہیں کہ موجود انتخابات کے بعد تشددکی لہر پھیلے گی اور امریکہ میں قائم تین سو سالہ جمہوریت اور روایات سخت خطرے میں ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں