عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 372

ایسا بھی ہوتا ہے کیا۔۔۔ ؟

پاکستانی سیاست سے کبھی تو ادارے ہچکولے کھاتے ہیں اور کبھی اداروں کی مداخلت سے سیاست اور حکومت ہچکولوں کی زد میں آجاتی ہے۔ جس کا نقصان کسی اور کو نہیں صرف ریاست پاکستان کو پہنچتا ہے۔ جس کا ادراک و فہم کم از کم انہیں ضرور ہونا چاہئے جو فیصلے کرنے کی حالت میں ہوتے ہیں۔ شہرت کا مرض یا اس کا زہر غیر معمولی ذمہ دار افراد سے کس کس طرح کے کام کروا سکتا ہے اس کا اندازہ تو مجھے تھا لیکن اس طرح سے بھی ہو سکتا ہے یہ مجھے معلوم نہیں تھا۔
جی ہاں! میں ذکر ”چائے کی پیالی میں اٹھنے والے اس طوفان“ کا کررہا ہوں جو کسی کی مدت ملازمت میں توسیع کرنے کے حکم کو معطل کرنے کے فیصلے سے اُٹھایا گیا ہے۔ معلوم نہیں یہ فیصلہ کسی ادارے کا دوسرے ادارے کے خلاف ہے یا پھر یہ براہ راست وزیر اعظم کے خلاف ہے اس لئے کہ نوک جھونک تو بیان بازیوں کی شکل میں چل ہی رہی تھی اور اس سے ملکی میڈیا کے ذریعے ملکی عوام بھی محظوظ ہو رہے تھے لیکن نوک جھونک کا اختتام اس طرح کے عدالتی کارروائی پر ہو گا اس کا کسی کو دور دور تک اندازہ ہی نہیں تھا یہ ایک اس طرح کا عدالتی فیصلہ یا عدالتی کارروائی ہے کہ جس کا اثر زائل ہونے میں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا وقت کسی سگریٹ کے دوئیں کو ہوا میں تحلیل ہونے یا اس کی راکھ کو زمین پر بکھرنے میں لگتا ہے۔ سیاسی مبصرین اور سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ دراصل دو اداروں کے ایک پیج پر کام کرنے کی کارروائی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش ہے جس کا براہ راست نقصان ریاست پاکستان کو اور فائدہ ملک دشمنوں کو پہنچے گا۔ اس لئے اس طرح کے اقدامات کرنے والوں کو معاملے کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہئے ہر کام اپنا قد اونچا کرنے یا شہرت حاصل کرنے کے لئے نہیں کرنا چاہئے۔ ان مبصرین اور دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مگر صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ کچھ تو ہے جس کی وجہ سے پہلے درخواست کو برق رفتاری سے سوموٹو میں بدل دیا گیا اور اس کے بعد کلریکل خامیوں کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرلیا گیا۔ ایسا کرنے کی وجہ بظاہر اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ عدلیہ اپنی خودمختاری ثابت کررہی ہے۔ جس کا دعویٰ ابھی چند ہی روز قبل خود چیف جسٹس وزیر اعظم کے تقریر کے ردعمل میں کرچکے ہیں۔ یہ ساری کڑیاں اسی جانب اشارے کررہی ہیں حالانکہ عدلیہ کو اپنی خودمختاری ثابت کرنے کے اور بھی بہت سارے مواقع ملے تھے لیکن پاکستان میں اب یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ خود کو دلیر، پارسا اور با اصول ثابت کرنے کے لئے ایک ادارے کے خلاف لکھنا، بولنا اور اس کے خلاف فیصلے کرنا معیار بن گیا ہے۔
پاکستان میں تو وہ صحافی صحافی ہی نہیں یا کم از کم با ہمت اور دلیر ہی نہیں جو ایک ادارے کے خلاف کچھ لکھنے یا بولنے کی جرات نہ رکھتا ہو۔ یہ ہی مرض یا بیماری اب دوسرے اداروں کو بھی لاحق ہو رہی ہے۔ اس طاقتور ادارے کا کوئی ترجمان یا ایجنٹ نہیں جو ان کی وکالت کررہا ہو اور یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ وہ حکومت سازی یا سیاست میں کوئی مداخلت نہیں کرتے لیکن یہ وقت اس طرح کے متنازعہ فیصلوں کے کرنے کا نہیں۔
میری ذاتی رائے میں عجلت میں یہ غلط کام ہو گیا ہے اور اس کی اصلاح کالم کی اشاعت سے قبل ہی کردی جائے گی لیکن ایسا کرنے سے عدلیہ سے زیادہ اس طرح کا قدم اٹھانے والے کی شہرت کو نقصان پہنچا ہے۔ لیکن جو ہو گیا وہ ہو گیا اب اس پر پچھتانے سے کیا؟ کچھ لوگ بے نقاب ہو گئے، ذاتی مفاد سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچا اور دشمنوں کو قہقہے لگانے کا موقع مل گیا۔ عمران خان کی حکومت کو اس طرح کے اقدامات سے کمزور کرنے اور اسے بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور غیر روایتی سیاستدان کے پاکستان پر حکمرانی کے تجربے کو ناکام بنانے کی سازش کی جارہی ہے۔ غیر روایتی سے مراد عمران خان کو بھی روایتی بنانے یعنی انہیں بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح سے ہر طرح کی غفلت لاپرواہی اور کرپشن پر آنکھ بند کرکے چلانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ عمران خان بھی ایمانداری اور سچائی کا راگ الاپنا چھوڑ دیں اور وہ بھی وہی طور طریقہ اپنائیں جو سابقہ حکمران اپناتے رہے ہیں اور زیادہ غریبوں کے بارے میں سوچنے اور کچھ کرنے کا سلسلہ بند کردیں۔
گزشتہ روز کا عدالتی فیصلہ وزیر اعظم کو اس بے ساکھی سے محروم کرنے کی کوشش ہے جس کے سہارے وہ شارع حکمرانی پر بلا خوف و خطر کے ٹھہر ٹھہر کر چل رہے ہیں ایسا کرنے میں ملکی اپوزیشن اور اس سے زیادہ ملک دشمنوں کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے ہر کام اور ہر فیصلے سے پہلے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے کہ ان کے فیصلوں سے کے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ اس سے ملک کو کتنا نقصان اور دشمنوں کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ فیصلے انصاف اور آئین کے مطابق نہ ہوں۔ فیصلے خواہشات اور دباﺅ پر نہیں آئین اور قانون کے مطابق ہی ہونے چاہئیں۔ لیکن تیکنیکی غلطیوں پر اتنے بڑے فیصلے کرنے سے گریزکرنا چاہئے کہ جس سے پوری عمارت کے گرنے کا خدشہ ہو۔
وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ خود بھی بیان بازیوں میں محتاط رہیں اور اپنے ترجمانوں کو بھی محتاط رہنے کی تاکید کریں اس لئے کہ چائے کی پیالی میں اٹھنے والا یہ طوفان ان کے غیر محتاط بیان بازیوں کا ہی نتیجہ ہے اس لئے کہ سوال کرنے والے خود سے سوال کرنے کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کر سکتے اور اس طرح کی صورتحال میں ان کا انتقام میں آنا ایک فطری امر ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان سے اتنی سی گزارش ہے کہ وہ تقریروں اور دوسرے بیان بازیوں میں غیر معمولی احتیاط سے کام لیں۔ جب کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی تبدیلی کے بجائے دوسرے آپشن کو اپنا کر عقلمندی کا مظاہرہ کیا ہے جہاں اب میجر ریٹائرڈ اعظم سلطان کو چیف سیکریٹری تعینات کرکے ایک طرح سے عثمان بزدار کو ڈمی کرکے کنٹرول ان کے حوالے کردیا ہے جن سے طاقت کا توازن بگڑ رہا تھا۔ یہ ہی وقت اور حالات کا تقاضا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں