سیاسی رسم 441

بابری مسجد کی شہادت صرف ایک سیاست تھی

انڈیامیں مودی حکومت کے آنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک بدترین سے بدترین صورت اختیار کر رہا ہے۔مودی حکومت نے باآخر انڈیا میں موجود مسلمانوں کو یہ احساس دلادیا کے قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ دوقومی نظر کے پیش نظر سو فیصد درست تھی۔ 1947ءسے پہلے بھی ہندو گروپ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ہندو مسلمانوں کے ساتھ مذہب کے نام پر کچھ نہ کچھ مسائل سے دوچار تھے۔ اس وقت انڈیا میں رہنےوالے اوربھی دوسرے مذہب کے لوگ ان انتہا پسند ہندو کے رویہ سے سخت پریشان ہیں۔ یہ انتہا پسند ہندو مذہب کے نام پر کچھ اور ہی سیاست انجام دے رہیں ہے۔ انڈیامیں رہنے والے مسلم اور دوسرے مذہب کے لوگوں کی نہ تو زندگی محفوظ ہے۔ اور نہ ہی عبادت گاہ محفوظ ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ ظلم وتشدد کی تکلیف دہ ماحول اب ہی صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ مذہب کی آڑ میں انتہا پسند ہندو ظلم وستم کا کھیل مختلف صورت میں مسلمانوں کے ساتھ باخوبی کھیل رہیں ہے۔ کبھی کسی نوجوان مسلمان کو زبردستی گائے کا پیشاب پینے کو دینا تو کبھی زبردستی کسی مسلمان کو اپنا بھاجن پڑھنے کو کہنا، اور اس کے بعد اس کو بے دردی سے قتل کر دینا۔ مسلمانوں کی عبادت گاہ کو شہید کر دینا۔ ان لوگوں کے لیے ایک معمولی سی بات بن گئی ہے۔ انڈیا اب اقلیت کے لحاظ سے بالکل غیر محفوظ ملک ہے۔ انڈیا میں اقلیتوں کے انصاف کا جنازہ جب نکلا تھا جب بابری مسجد کو انتہا پسندہندو نے شہید کیا تھا۔ بابری مسجد ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک مسلمانوں اور ہندوﺅں کے درمیان تنازع اہم سبب بنی ہوئی تھی۔ ہندوشدت پسند گروہوں نے بابری مسجد کو 6 دسمبر سن 1992 میں شہید کر کیاتھا۔ جس کے بعد طویل عرصے تک کیس چلنے کے بعد 19نومبر 2019 کو فیصلے کے بعد مسلمانوں کو سخت مایوسی ہوئی۔ ہر دلائل ہونے کے باجود ہندوﺅں کے حق میں فیصلہ سناگیا۔ اگر بابری مسجد کی تاریخ دیکھے تو دلائل صاف نظر مسلمانوں کے حق میں آ گئے۔ ایودھیا میں واقع بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الد ین محمد بابر کے حکم سے 1527 میں اترپردشن کے مقام ایودھیا میں تعمیر کی گئی تھی۔ بابری مسجد کے مطابق ہندوﺅں کاکہنا ہے۔ کہ اس مسجد کو مسلمانوں نے سولہویں صدی میں ایک مندر کو گراکر تعمیر کی تھی۔ حالانکہ کے تاریخ کچھ اور ہی گواہی دیتی ہے۔ مسلمانوں کے مطابق دسمبر 1947 تک اس مسجد میں نماذ پڑھتے رہےمسلمانوں اور ہندوﺅں میں چار عشروں تک اس زمین پر اختیار اور عبادت کے حق کے لیے عدالتوں میں کیس درپیش تھے بات جب زیادہ خراب ہوئی جب انتہا پسند ہندوﺅں نے 6 دسمبر 1992 میں مسجد کو شہید کر دیا۔ مسجد کو شہید کرنے کے دوران تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو بھی شہید کیا گیا تھا۔ جس کا حساب انڈیا کی کسی گورنمنٹ نے حادثہ کے بعد نہیں دیا۔ کچھ وقت کاروائی کی جس کچھ نہیں ہوا اگر کچھ ٹھوس عمل سے کام کیا جاتا تو انڈیا میں بابری مسجد کے بعد مزید اور مساجد شہید نہیں ہوتی۔ انڈیا میں بابری مسجد کے بعد دس مساجد سے زائد مساجد شہید کی گئی۔ جس کو دیکھ کر لگاتا ہے کے بابری مسجد کا فیصلہ ہندوﺅں کے حق میں آنا جیسے کوئی سیاست تھی۔ انڈیا میں اور بھی مساجد شہید کی گئی جن کو شہید کرنے کی وجہ کوئی نہ کوئی بے بنیاد باتوں پر قائم تھی۔ انتہا پسند ہندو کی بغض کی آگ مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ بہت سے دوسرے مذہب کے لوگوں کو یہ معلوم ہو گیا ہے کے ان کی آنے والی نسل اب انڈیا میں غیر محفوظ ہیں۔ ان انتہا پسند ہندو کو شے مودی جیسے حکمران کی طرح سے دی جا رہی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد انڈیا میں ایک اور تاریخی مسجد کو شہید کیا گیا جو کہ تاریخی مسجد حیدرآباد کے علاقے عنبرپیٹ کے مرکز میں واقع تھی۔ اس کو شہر کی قدیم ترین مسجد کا اعزار بھی حاصل تھا۔ چار سو سال تاریخی مسجد کو شہید کرنے کا سبب یہ بنایا گیا کے اس جگہ پہلے گھر آباد تھا۔ جس کے پختہ دلائل موجود نہیں تھے۔ مسجد کو انتظامیہ کی جانب سے شہید کیے جانے کے بعد ریاست تلنگانہ کے وقف بودڈ سمیت دیگراداروں نے مسجد کی شہادت کو غلطی قرار دیا۔ اور دوبارہ تعمیر کروانے کا اعلان کیاگیاجس پر انتہا پسند ہندوﺅں فیصلہ کے بعد برہم ہوگے۔ مسجد کو ماہ رمضان المبارک سے چند دن قبل شہید کیا گیا جسے کے بعد ہزاروں مسلمان نمازیوں کو عبادت میں مشکلات کا سامنا ہوا۔ اس طرح نئی دہلی میں ایک اور مسجد کوشہید کیاگیا۔ قرآن پاک نسخوں کو بھی آگ لگادی اس کے ساتھ دوسری مسجد کو پڑول بم کے حملے سے شہید کیا گیا۔ ان مساجد کا تعلق دہلی کے علاقےمصطفی آباد سے ہے۔ اس افسوس ناک واقع رونما ہوتے وقت مساجد شہید کرنے کے ساتھ اس جگہ رہنے والے مسلمانوں کی بستیوں اور دکانیں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس سے ان کو جانی اور مالی شدت نقصان ہوا۔اس حادثہ میں 40 افراد ہلاکت ہوئی جبکہ دوسو سے زائد زخمی ہوئی۔ان تمام تر صورت حال کو دیکھ کر لگاتا ہے جیسے بابری مسجد اور دوسری مساجد شہید کرنا صرف ایک سیاسی کے تحت کیا جا رہا ہے۔۔ جس میں انتہاپسند ہندوﺅں کو ان کی بغض آگ خود ہی کھارہی ہے۔جس کا اندازہ ان کو جب ہو گا جب ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ خود ایک آزاد ریاست کے لیے آواز اٹھائیں گے۔اور پاکستان کی طرح اور بھی ریاست مذہب کے نام پر وجود میں آئیں گی۔ شاید انڈیا سے کے ریاست کا وجود میں آنا لازمی ہو گیا ہے۔ جب ہی مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی آنے والی نسل کو محفوظ کر سکے گے۔ انتہا پسند ہندو کی مسلمانوں کے ساتھ کی گئی زیادتی سے خود یہ بتا رہیں ہے۔ کل کو یہ زیادتی دوسرے مذہب کے لوگوں کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے۔آج انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ مسلمانوں کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ظلم وستم کے خلاف آواز اٹھانے اور اجتجاج کی صورت میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب انڈیا میں ہر مذہب کی ریاست دنیا دیکھی گئی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے جو آج تک بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آئی جو ایک سوال بھی ہے ان انتہاپسند ہندو سے کے گائے کا گوشت کھانے میں صرف مسلم کو ہی کیونکہ مار جاتا ہے۔ انڈیا میں حالانکہ کے گائے کا گوشت کھاتے ہر مذہب کے لوگ ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ ہے کے انڈیا کی کمپنی خود پوری دنیا میں گائے کا گوشت سپلائی کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جب کوئی انگریزں یا عرب کے حکمران ان کے ملک میں باطور مہمان آتے ہیں تو ان کو کھانے میں ہر طرح کے گوشت سے بنائے ہوئے پکوان پیش کیے جاتے ہیں جس میں گائے کے گوشت سے بنائے ہوئے پکوان بھی شامل ہوتے ہیں۔ جب ان کی انتہاپسند جذبات کہا چلے جاتے ہے۔ جب مسلم ملکوں کے ساتھ کاروبار کیے جاتے ہیں جب مسلم ملک یہ دوسرے ملکوں میں مسلمان کے ہاتھ کے کھانے نوش فرماتے ہیں۔ جب ان کے جذبات کہا چلے جاتے ہیں۔ یہ انتہا پسند ہندو مذہب کے نام پر جو ڈرامہ انڈیا انجام دے رہا ہیں۔ یہ خود اپنے کھیل میں پھستے جا رہیں ہے۔ ان کے اپنے انتہا پسند جذبات سے کیے گیے کام کا نتیجہ بہت برا ہوگا یہ خود اپنی تباہی کے ذمہ دار ہو گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں