کسی سے بات کیجئے! 483

بچوں پر جنسی تشدد کے معاشرتی اثرات!

بچے کے جھکے ہوئے سر نے دل دہلا دیا اور اس دن سے جب بھی خیال آتاہے نہ تو تکلیف کم ہوتی ہے نہ آنسو تھمتے ہیں۔ خدا نے اسی لیے ماو¿ں کے دل نرم رکھے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے بچے کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہوجاتی ہیں بلکہ راہ چلتے کسی بھی انجان بچے کی تکیلف ان کی برداشت سے باہر ہوجاتی ہے اور ایسے میں دل رو روکے چاہتا ہے کہ ان معصوموں کو اذیت دینے والے گھٹ گھٹ کے مریں بلکہ اتنا گھٹیں کہ موت مانگیں تو موت بھی نہ آئے۔ یا خدا ایسی جگہوں پر زمین کیوں نہیں پھٹ جاتی ؟ اگر قومِ لوط پر پتھروں کی بارش ہوسکتی ہے تو یہ استاد نما بھیڑئیے پر بھی پتھروں کی بوچھاڑ لازم ہے۔ کہاں ہیں وہ عزت دار لوگ جو بیٹی کو محض محبت کرنے پر کاری کر ڈالتے ہیں تو یہ ظلم بھی تو سندھ کے گوٹھ میں ہوتا رہا۔ میرواہ رہنے سے پہلے وہ استاد کسی اور علاقے میں رہتا تھا جہاں پر بچوں سے زیادتی پر اسے علاقہ سے نکال دیا گیا۔ اس بدفعلی پر اس پر پتھر برسا برسا کر اسے زندہ درگور کیوں نہ کیا گیا؟ بلکہ اسے مزید سینکڑوں بچوں کے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا
تو یہ رہا ہمارا مہذب معاشرہ۔ بجائے اس ملزم کو کیفر کردار تک پہنچاتے، اسے بس علاقہ بدر کر دیا گیا وہ دوسرے علاقہ میں پہنچ کر پھر سے شیر ہوگیا اور معصوم اس کے ظلم و بربریت کا نشانہ بنتے رہے۔اس سب میں اس درندے استاد کے ساتھ ساتھ ہمارا انتہائی لاپرواہ معاشرتی رویہ بھی شامل ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے گھر کا چولہا جلنے پر خدا کا منہ بولا شکر ادا کردیتے ہیں مگر کسی بھوکے کے گھر کا چولہا جلا کے اسے اس شکر میں شامل نہیں کرسکتے ہیں۔
غریبوں کے گھر بچے بھی ایسے ہی پیدا ہوجاتے ہیں جیسے کہ مسائل۔ اور ان بن مانگے کی بچوں کا پالنا پوسنا بھی کسی مسئلے سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ماں باپ بچے کی سرگرمیوں اور ان کے مسائل سے بے پرواہ اپنی مجبور زندگی جینے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ تر بچے سڑکوں پہ کچھ نہ کچھ بیچتے یا ہوٹلوں ، دوکانوں، ڈھابوں، کباڑئئے اور ورکشاپوں پہ کام کرتے اور گالیاں کھاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ جو ہاتھ میں آتا ہے اٹھا کے مار دیتے ہیں۔ یہ جملہ میرے ابو بولا کرتے تھے کہ بچوں کو کام پہ نہیں بھیجنا چاہئے ان کا معصوم بچپن یہ سب سہن نہیں کرپاتا۔ اور اب دل درد سے بھر جاتا ہے جب آئے دن یہ خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ فلاں جگہ بچے کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ بچی قتل ہوگئی۔
انسان نے ترقی منزلیں بے کیں تو برائی نے اس ترقی میں بھی اپنا پلڑا نیچے نہیں ہونے دیا۔ آج جس کو موبائل استعمال بھی نہیں کرنا آتا اس کے ہاتھ میں بھی موبائل ہے اور ایسے ایسے جاہل معصوموں پر ہونے والے ظلم و زیادتی کی ویڈیوز بنا کے انھیں بلیک میل کرتے ہیں
ایک جگہ پڑھا کسی نے لکھا ہوا تھا کہ ایسا فعل بغیر بچوں کی اجازت کے کوئی کیسے کرسکتا ہے باہمی رضامندی ہوگی۔ سلام ہے اتنی بے بنیاد سوچ کو کہ معصوم ، بے بس بچوں سے کون رضامندی لیتا ہوگا اور کون سے بچے ہیں جو اس جسمانی، ذہنی اور جذباتی اذیت سے گزرنا چاہتے ہوں گے۔ انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے مجھے سانحہ قصور یاد آگیا جہاں بچوں کو کنوے میں لٹکایا جاتا تھا۔ یااللہ! اتنا ظلم۔
کم ازکم بچوں پہ ظلم برداشت کرنے کی بالکل بھی ہمت نہیں جڑ پاتی۔ سب سے کمزور ، بے بس اور معصوم طبقہ ہے یہ۔ آج ایک خبر پڑھ رہی تھی کہ ایک ماں نے اپنے شوہر کو آگ لگادی کہ اس آدمی نے اپنی سات سالہ بچی سے زیادتی کی۔ ایک ماں کی عدالت میں یہی سزا ہوسکتی تھی کہ اس کا شوہر آئندہ کسی سے بھی یہ فعل کرنے کے قابل نہ رہے حالانکہ وہ زندہ بچ گیا تھا۔ مگر کسی سے زیادتی کرنے والے آلہ کار کو آگ لگ چکی ہے۔
پاکستان میں بھی ان درندوں کو زندہ رکھ کر ایسی سزائیں دی جائیں کہ یہ دوبارہ کسی بچے تو کیا بڑے کے ساتھ بھی زیادتی نہ کرسکیں۔ معاشرے کے ہر فرد کا فرض ہے کہ اپنا کردار جس حد تک ہو پورا کرے کیونکہ قانونی ادارے پوری دنیا میں چائلڈ پورنوگرافی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں۔ اس دہر میں ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک بھی کھڑے ہیں۔ اسی لئے یہ صرف قانون کی نہیں بلکہ معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا کردار کیسے ادا کرسکتا ہے۔ پیچھے نہ رہئے بچے سب کے لئے ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اپنے حصے کا کام ضرور کیجئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں