سیاسی رسم 476

بھارتی مسلمانوں پر کرونا وبا کی آڑ میں تشدد عام

مودی حکومت آنے کے بعد بھارت میں مسلمان سخت پریشانی سے دو چار ہیں۔ مودی حکومت کا مسلمانوں کے خلاف 2014ءسے نفرت انگیز مہم چلائی جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ مودی حکومت اور بھارتی ذرائع ابلاغ کو کرونا وائرس کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف تفریق برتنے کے الزامات میں اہم کردار ہے۔۔ جس کے سبب مسلمانوں پر تشدد حد سے بڑتاجارہاہے۔بھارت میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شریک ہونے والے متعدد افراد کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے نتائج مثبت آئے ہیں۔ جس کے بعدبھارتی میڈیا نے ایک مہم کے تحت مسلمانوں کو کرونا وائرس کی وبا پھیلانے کا اہم ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔بھارتی میڈیا اس وقت مسلمانوں کے خلاف غلط خبریں نشر کرنے میں اہم کام انجام دیے رہا ہے۔ بھارتی میڈیا نے وقت کی نزاکت کو دیکھ کر غلط خبریں نشر کی اور تبلیغی جماعت اور دیگر مسلمانوں پر کرونا جہاد کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی میں نظام الدین کے علاقے میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز میں مسلمان بھارت میں کرونا پھیلانے کی سازش کے تحت جمع ہوئی ہیں۔ جس کے بعد مسلمانوں کے خلاف بہت دن تک نیوزچینلز پر اس الزام کے تحت پروگرام نشر یات کیے جاتے رہے۔ اس کے بعد مختلف ریاستوں کی حکومتوں نے تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد کی تلاش شروع کردی اور سامنے نہ آنے پر ان کے خلاف کاروائی کا آغاز بھی کیا۔ میڈیا کی اس رپورٹنگ کے بڑے پیمانے پر منفی نتائج سامنے آئے اور بھارتیہ جنتاپارٹی (بی جے پی) کے بعض رہنماﺅں اور کارکنوں نے مسلمانوں کو کرونا پھیلانےکا اہم ذمہ دارقراردیا۔ان سب منفی اثرات نے عوامی سطح کو بھی متاثر کیا اس صورت حال نےاتنی بدترین سطح اختیار کرلی کے مسلم سبزی فروشوں کے شناختی کارڈ چیک کیے جانے لگے اور انہیں ہندو اکثریتی علاقوں سے بھگایا جانے لگا ان پر حملوں کے بھی واقعات پیش آئے۔ بھوپال سے دہلی آنے والے تبلیغی جماعت سے منسلک ایک نوجوان کو کرونا پھیلانے کے الزام کے تحت مقامی شر پسندوں نے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔ جب کے کرونا وبا ٹیسٹ میں اس نوجوان کی رپورٹ منفی آئی تھی۔ دہلی ہی میں ایک اور ہندو اکثریتی علاقے میں ایک مسلم سبزی فروش کا نام پوچھ کراس پر تشدد کیا گیا۔ اس ہی طرح ریاست ہماچل پردیش اور پنجاب کے بعض علاقوں میں مسلم ڈیری فارمرز کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔ نہ صرف یہ کہ لوگوں نے ان سے دودھ خریدنا بند کر دیا بلکہ کئی خاندانوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبورکر دیا گیاہے۔ مسلمانوں کو اسپتالوں میں بھی نہیں بخشا۔ بنارس کے دو اسپتالوں نے مسلم خواتین کا علاج کرنے سے انکار کر دیا وجہ یہ بتائی کے یہ کرونا پھیلانے آئی ہے۔ اسپتال کے عملے نے منفی رویے کے ساتھ کہا کرونا کی جانچ کرائیں اور وبا کی منفی رپورٹ لے کر آئیں۔ اس طرح جے پور میں بھی ایک مسلم خاتوں کو اسپتال میں داخل نہیں کیا گیا۔ اسٹریچرپر ہی بچے کی پیدائش ہوئی جو کچھ دیر کے بعد فوت ہوگیا۔میٹرٹھ کے ایک کینسر اسپتال نے ایک کثیر الاشاعت روزنامے میں اشتہار شائع کرواکر مسلمانوں سے کہا کہ وہ اس اسپتال میں علاج کی غرض سے اسی وقت آئیں جب ان کے پاس کرونا وائرس کے ٹیسٹ کی منفی رپورٹ ہو۔ اشتہار میں کرونا کے لیے تبلیغی جماعت کو وجہ بنا کرالزام ٹھرایا گیا۔ اور کچھ اسپتالوں میں احمد آباد کے لیے سرکاری اسپتال میں کرونا کے مسلم اور ہندو مریضوں کو الگ الگ وارڈز میں رکھاگیا ہے۔جس کی امریکہ کے مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن نے مزمت کی ہے۔وزارت خارجہ نے اس خبر کی تردید کی ہے۔ لیکن اسپتال کے سپرنٹنٹدنٹ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے۔ کہ حکومت کے ایک حکم نامے کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔ اسپتال میں داخل مریضوں نے بھی کرونا کے مسلم اور ہندو مریضوں کو الگ الگ وارڈز میں رکھے جانے کی تصدیق کی ہے۔ ان تمام واقعات پر انسانی حقوق کے کارکنوں اور تجربہ کاروں کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیاجارہا ہے۔ بھارت میں بات اب انتہا پسند ہندو تک محدود نہیں ہیں مودی حکومت باآخر نفرت پھیلانے میں کامیاب ہو ہی گئی ہے۔ جس کا اثر بھارت میں ہر جگہ موجود ہے۔ بھارت میں دیگرارادوں کے ساتھ پولیس بھی حکومت کی مہم کے تحت مسلمانوں کو بے بنیاد چیزوں پر نشان بنارہی ہے۔دہی اقلیتی کمیشن کے چیئر پر سن ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی خلاف ورزی کے لیے تبلیغی جماعت کو تو ذامہ دار قرار دیا گیا ہے۔ لیکن خود حکومت سیاسی جماعتوں اور دیگر مذہبی گروپوں کے جانب سے لاک ڈاﺅن کی خلاف ورزی کی درجنوں مثالیں ہیں۔جن میں کرونا وائرس کے سلسلےمیں عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ لیکن الزام صرف مسلمانوں کے جانب موڑدیا گیاہے۔اس وقت بھارت میں مسلمانوں پر حملے ہر جگہ سے ہو رہیں ہے۔ مودی حکومت کی پشت پناہی میں جاری مہم بھارت کو پوری دنیا میں بدنام کر رہی ہیں۔ پوری دنیا کو مودی حکومت کا کالا چہرہ صاف نظر آنے لگا ہے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندمودی ایک ٹویٹ میں کہاہے۔ کہ کرونا وائرس حملہ کرنے سے قبل مذہب، ذات برادری ،رنگ،نسل قومیت اور سرحد نہیں دیکھتا۔ اس کے ساتھ ہی نریند مودی نے وبا کے خلاف لڑائی میں عوام سے متعدہونے کی اپیل کی۔
وزیراعظم کا یہ بیاں اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی ) کے اس بیان کے بعد آیا ہے۔ جس میں (او آئی سی ) نے بھارتی مسلمانوں کو وبا پھیلانے کا ذامہ دار قرار دینے کی ہندو نواز عناصر کی مبینہ مہم کی مزمت کی تھی۔ (او آئی سی ) حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ مسلمانوں کے حالات بھارت میں مودی حکومت میں مثبت شکل کبھی اختیار کر سکے گئی یہ بات غیر یقینی نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا سلوک ایک بنائی گئی مہم کے تحت ہے۔جس کا مقصد بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدل کرنا ہے۔ مودی حکومت کے اس عمل کے نتائج کیا ہو گے یہ تو وقت ہی طے کرے گا۔ بھارتی مسلمانوں کو اتحاد کے ساتھ اپنی آنے والی نسل کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہوگیا ہے۔ ورنہ بھارتی مسلمانوں کی آنے والی نسل کا حال مقبوضہ کشمیر کی طرح ہو گا۔ بھارت میں نئی اسلامی ریاست کا وجود میں آنا لازم ہو گا ہے۔جب ہی بھارتی مسلمان اپنی آنے والی نسل کو تحفظ دے سکے گئی۔ اللہ پاک بھارتی مسلمانوں کی غیبی مدد عطا فرمائے۔ آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں