عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 416

ترکی اور پاکستان بنے ایک اور ایک گیارہ!

اس وقت عالمی سیاست ترکی پاکستان اور چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کے گرد گھوم رہی ہے۔ تمام تر ملکوں کی خارجہ پالیسی ان ہی تینوں ملک کے تعلقات کو دیکھ کر بنائی جارہی ہے۔ خاص طور سے عرب ممالک میں پاک ترکی کے بڑھتے ہوئے تعلقات نے صرف ماتم بچھا دیا ہے۔ انہیں اپنی موت صاف طور پر نظر آرہی ہے، ایک طرح سے انہوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے، سعودی عرب سمیت متحدہ عرب امارات نے اپنے اپنے طور پر پاکستانی حکمرانوں کو ترکی سے دور رہنے کی بہت کوشش کی انہیں پہلے لالچ اور اس کے بعد ڈرا دھماکہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانیوں کو ملازمت سے نکال کر واپس پاکستان بجھوانے کی دھمکی دے کر بلیک میل بھی کیا مگر پاکستان اپنے ادارے اور عزم سے ایک قوم بھی پیچھے نہیں ہٹا اور بلکہ ترکی کے شانہ بشانہ وہ چل رہا ہے۔
عمران خان نے پہلے غازی ارطغرل نامی ڈرامہ سیریز تمام تر مخالفتوں کے باوجود قومی ٹی وی پر نشر کروایا تاکہ پاکستانی مسلمانوں کو سلطنت عثمانیہ میں مسلمانوں کے تاریخ کا علم ہو کر مسلمان پوری دنیا پر حکومت کرنے والے ہیں۔ وہ دوسروں کے غلام اور تابع بن کر رہنے کے کبھی بھی عادی نہیں تھے، وہ صرف و صرف اپنے مذہبی رسم و رواج طور طریقوں اور شریعت محمدی چلنے والے ہیں اس ترکی کے ڈرامہ کے بعد اب ملک میں ایک قانون کے ذریعے عربی زبان کو نصاب کا لازمی جز بنا دیا گیا ہے۔ یہ ایک انتہائی اچھا قدم ہے اور اس طرح سے ہماری آنے والی نسلیں اسلام کے اور بھی قریب ہو جائیں گی۔ اس لئے کہ زبان کے ساتھ کلچر کا چولی دامن کا ساتھ ہے، زبان سیکھنے سے کلچر اور ان کی روایات میں بھی دلچسپی بڑھ جاتی ہے جو کہ ایک اچھا اقدام ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے لیکن بعض پاکستانی سقراطوں اور بقراطوں نے عمران خان کے اس اقدام پر بھی تنقید کے نشتر برسا رہے۔ رضا ربانی جیسے مدبر بزرگ سیاستدان نے بھی عمران خان کے اس کارروائی پر خفگی کا اظہار کیا ہے۔ عمران خان کا عربی کو نصاب میں شامل کرکے اسے لازمی قرار دین ےسے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی تبدیل ہو رہی ہے اور پاکستان ترکی کے پارٹنر کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنی اور ترکی کی طاقت کو ایک اور ایک گیارہ بنانے میں لگا ہو اہے۔ پوری دنیا خاص طور سے بڑی طاقتوں امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی عقابی نگاہیں بھی اس وقت پاکستان اور ترکی کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر جمی ہوئی ہیں، ہر کسی کو 2023ءکا انتظار ہے جیسے کہ دنیا کی پوری کی پوری سیاست ہی بدلنے جارہی ہے ایسے لگ رہا ہے کہ 1923ءکی صورتحال دوبارہ سے خود کو دہرانے جارہی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے بخرے ہونے کے نتیجے میں اس کے بطن سے آزاد ہونے والے عرب مالک کی صورت حال بھی 2023ءکے قریب آنے سے خراب ہوتی نظر آرہی ہے ایسے موقع پر اسرائیل نے اپنے کیمپ کا راستہ اس طرح کے ڈرے اور سہمے ہوئے اسلامی ممالک کے لئے کھول دیا ہے اور کہہ دیا ہے کہ اگر وہ اسلامی ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل کو تسلیم کرنا شروع کر دے تو اسرائیل ان کی اس موقع پر نہ صرف مدد کرنے کو تیار ہے بلکہ ان کی سالمیت کی بھی یقین دہانی کرواتا ہے اس سلسلے میں گرچہ متحدہ عرب امارات نے پہل کردی ہے مگر اس کے اسرائیلی کیمپ میں چلے جانے سے مسلمانوں کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اس لئے کہ خود متحدہ عرب امارات کی اسلامی ملکوں میں کوئی خاص مقام نہیں ہے بعض اسلامی ممالک تو اسے اسلامی ملک کے بجائے ایک سیکولر اور کاروباری ملک سمجھتے ہیں جس کا نصب العین ہی نفع و نقصان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ عشرت کدے اور جوا خانے متحدہ عرب امارات میں واقع ہیں۔
دنیا بھر سے لوگ عیاشی اور جوا کھیلنے کے لئے متحدہ عرب امارات کا رخ کرتے ہیں، ہر وہ کام جس کی اسلامی شریعت میں ممانعت ہے اس کی وہاں کھلے عام آزاد ہے، اس لئے متحدہ عرب امارات کا اسرائیلی کیمپ میں چلے جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں البتہ انڈونیشیا، ملائیشیا، بنگلہ دیش، ترکی یا پاکستان جیسے ملک کا اسرائیل کے کیمپ میں چلے جانا بڑی بات ہو گی اور ایسا ہونا کسی بھی لحاظ سے ممکن نہیں۔ دنیا کی بڑی قوتیں پاک ترکی بڑھتے ہوئے تعلقات کو کم یا ختم کرنے کے لئے اپنی اپنی کوششیں کررہے ہیں۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا الیکشن میں ہار جانا اور اس کے بعد جوبائیڈن کا امریکی صدر بن جانا اسی سلسلے کی کڑیاں بتائی جاتی ہیں۔ دنیا کے بڑی طاقتیں پاک ترکی اور چین و روس کے ایک ساتھ مل کر ایک نئے بلاک بننے سے خوفزدہ ہیں اور اس کی روک تھام کے لئے اندرون خانہ سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اور اسی مقصد کے تحت سی پیک کے تعمیراتی کاموں میں بھی رختہ ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر بنائیں، ملک کی سلامتی اور اس کی ترقی کو ہر معاملے پر مقدم رکھیں، خود میں موجود دشمنوں کے ساتھیوں کے عزائم کو ناکام بنانے پر ہی اپنی ساری توانائیاں صرف کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں