اس تحریر کا محرک ، عزیز دوست وقار ریئس کا ایک فیس بک پیغام تھا۔ وقار رئیس ٹورونٹو کے شرق میں مقیم ہیں اور اک ممتاز سماجی شخصیت جانے جاتے ہیں۔ وہ شرق میں بیٹھے ایک عالمِ اشتہا میں فیس بک دوستوں سے مشورہ مانگ رہے تھے کہ وہ انہیں ایسے پاکستانی رستورانوں کا نام بتایئں ، جہاں سے ان کے اہلِ خانہ ٹورونٹو کی ایک مغربی بستی سے کوئی ڈھنگ کا کھانا لیتے آئیں۔ گو ان کے اپنے اطراف میں پیزا، برگر ، چینی کھانے، اور دیگر اقسام کے رستوراں موجود ہیں۔
ہم نے اس طلب پر غور کیا تو سوچا کہ وطنِ عزیز کی مٹی چھوڑنے والے ہر پردیسی کو پردیس میں اپنے پکوانوں کی خوشبو کی ہوک کیسا پریشان کرتی ہے۔ اور جیسے جیسے آپ اپنے وطن کی مٹی سے دور ہوتے ہیں، اس خوشبو میں کمی آتی رہتی ہے۔ ذائقہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور پردیسی ہر گلی میں وہ دوکانیں ڈھونڈتا ہے جہاں اسے وہ ذائقہ مل جائے جو ماں کے کھانوں میں تھا۔
ہمیں اس کا تجربہ سنہ ستّتر میں پہلی بار سعودی عرب جا کر ہوا تھا۔ ملازمت کی تلاش میں ہر تنہا شخص یا تو خود ہی اپنی ماﺅں بہنوں کو خط لکھ لکھ کر کھانا پکانے کی ترکیبیں پوچھتا تھا ، یا اس ے جیسا تیسا بھی ملتا تھا، زہر مار کرکے سوجاتاتھا۔ مسالے ملتے نہیں تھے۔ حتیٰ کہ ہری مرچ اور پیاز بھی دوکانوں پر ہندوستا ن یا پاکستان سے آتے تھے۔ اس وقت تو سعودی عرب میں پاکستانی رستوراں تھے بھی نہیں۔ یہ تک ہوتا تھا کہ جب بھی آپ چھٹی پر گھر گئے ، مصالحوں کی پڑیاں باند کر لے آئے۔ کبھی تازہ کھانے بھی بکسوں میں چھپا کر۔ اگر وہ صندوق میں ہی نہ پھٹ گئے تو انہیں کسٹم والا پکڑ لیتا تھا۔ پھر آہستہ کچھ کھانے ٹین کے ڈبوں میں سیِل بند ہو کر آنے لگے۔ لیکن ایسا عام نہیں تھا۔
رفتہ رفتہ اکا دکا پاکستانی رستوراں کھلنے لگے۔ جن کا ذائقہ وطنِ عزیز کی طرح نہیں تھا۔ رستوراں والے کو بھی تیل مسالوں کی مشکل تھی۔اس مشکل میں غریب وہ دیسی گھی کہاں سے لاتے جس کی خوشبو اور ذائقہ، آپ کی ہر حس کو اپنے حصار میں رکھتا تھا۔تجربہ کار قصائی ملتا نہیں ہے، جو آپ کو وہ گوشت دے سکے جو کسی بھی اچھے طعام کی بنیاد ہے۔ رستوراں کے مالکوں اور پکوانچیوں نے اس سے پہلے پاکستان میں یہ کام کبھی نہیں کیا تھا۔ بچارے کیا جانتے ادرک کا مزا؟ ایک صاحبِ ذوق عزیز نے یہ بھولی بسری بات بھی سجھائی کہ وطنِ عزیز میں دیگیں اور برتن ، تانبے پیتل سے بنے ہوتے تھے۔ اب تقریباً ہر برتن المونیم کا ہوتا ہے۔ دھات اور آنچ کا فرق ذایئقہ پر جو اثر ڈالتا ہے اس کو صرف صاحبانِ ذوق ہی سمجھ سکتے ہیں۔
ہم نے دنیا کے کم از کم پچاس ملکوں میں سفر کیا اور کئی بار مہینوں، سالوں قیام بھی کیا۔۔ ہر جگہ یہ ہی دیکھا۔ دوبئی ، لندن، بحرین ، امریکہ، یونان ، قبرس ، غرض کہ ہر جگہ ہی ایک ہی حال تھا۔ لندن کی معروف سڑک آکسفورڈ اسٹریٹ پر اور اس کے اطراف میں زمانے سے چھوٹے چھوٹے رستوراں بکھر ے ہوئے تھے۔ ہر ایک کسی نہ کسی نام سے کری ہاﺅس، Curry House کہلاتا تھا۔ اس میں Curry Powder نام کے مسالے استعمال ہوتے تھے۔۔ جو شاید انگریز ہندوستان سے واپسی پر لائے ہوں گے۔ یہاں سے وہاں تک ایک ہی خوشبو پھیلی ہوتی تھی۔ یہ مسالے آج کے، ’شان ‘، یا ’نیشنل ‘،اور ’ مہران‘ ، جیسے نہیں ہوتے تھے۔ ا ن میں اکثر جنوبی ہندوستانی رنگ ہوتا تھا۔
سنہ اسی کے دہائی کے لندن میں اکا دکا بہتر پاکستانی رستوراں کھلے۔ ہمیں آج بھی لندن میں ایک رئیس علاقہ کا ، Salloos رستوراں یاد ہے، جو کسی معروف پاکستانی کا ہے جن کا اس سے پہلے لاہور میں بھی کئی سال یہی کاروبا ر تھا۔ یہاں کے کھانے از حد قیمتی ہوتے ہیں جہنیں رﺅ سا یا بڑے کاروباری ہی چکھ پاتے ہیں۔قیمت کا اندازہ یوں کیجیے کہ وہاں تندور ی جھینگوں کی ایک پلیٹ تقریباً بیس پاﺅنڈ یا چونتیس امریکی ڈالر کی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس رستوراں کے ذائقے پاکستان کے قریب ترین ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں لندن کے پہلے سفر کے دوران مٹھائی کی ایک دوکان Ambala جانے کا موقع ملا۔ اس نام کی دوکان پاکستان میں بھی ہوتی تھی۔ ہم نے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ یہ ہندوستانی تھی کہ پاکستانی۔ لندن میں یوسٹن اسٹیشن کے قریب یہ دوکان اب بھی ہے۔ اسی کے پڑوس میں کتابوں کی ایک دکان بھی تھی جہاں سے ہم نے کئی کتابیں اور موسیقی کے سی ڈی خریدے۔ اب شاید اس کی شاخیں یا اس نام کی دکانیں کئی شہروں میں کھل گئی ہیں۔
دیگر پردیسیوں کی طرح ہم جہاں بھی گئے ، وطن کی خوشبو ڈھونڈتے رہے۔ جن جن شہروں میں پاکستانیوں کی تعداد بڑھی ہے وہاں پاکستانی رستوران بھی کھلتے رہے ہیں۔ ہم نے اس کا منظر لندن میں بھی دیکھا، اور نیو یورک میں جیکسن ہائیٹس پر بھی، جہاں ایک زمانے میں فریدہ خانم کی بیٹی کا ’طباق‘ کے نام سے ایک رستوراں تھا، جو اب بند ہوگیا۔ اسی طرح نیو جرسی میں ایڈیسن شہر میں کئی پاکستانی رستوراں ہیں۔ شکاگو میں بھی ڈیوون Devon اسٹریٹ پر کئی رستوراں ہیں ، جن میں’ صابری ‘ کی نہاری پاکستان کے قریب ترین ہے۔
ہمارے ہاں ٹورونٹو میں بیسیوں پاکستانی رستوراں کھل گئیے ہیں۔سب نے ایک ہی جسیے نام رکھ لیئے ہیں، آج کل کڑھائی کا بہت چرچا ہے۔ ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ سارے کینیڈا میں صرف ’کڑاہی پوائنٹ‘ Karahi Point کی کڑاہیاں پاکستان سے قریب ترین ہیں۔ اسی طرح حال ہی میں کھلنے والی کبابوں کی دکان، کراچی کباب والا، پاکستانی کبابون اور چکن تکوں کے قریب ترین کہلائی جا سکتی ہے۔
یہان یہ بھی کہتے چلیں کہ اب تو یہاں تک یہاں سے وہاں تک نام بھی ایک ہیں۔ جگہ جگہ شالیمار ستوراں ملے گا۔ ہر ایک دوسرے لاتعلق اور اب ، کولاچی کانام پھیل کر کراچی والے کولاچی کو شرما رہا ہے۔ ہر ایک نے اپنے بورڈ پر کولاچی یا کڑاہی کا لاحقہ یا سابقہ جڑ دیا ہے۔ کولاچی کا نام پِٹا تو اب ایک لاراچی آگیا ہے۔
جسیے جیسے رستوراں بڑھتے جارہے ہیں۔ کھانے ایک جیسے ہوتے جارہے ہیں۔ نمک پاروں کے نام پر جو جی چاہا بیچا جارہا ہے۔ شاید ہی کہیں آپ کو وہ نازک اور خستہ کھلے کھلے نمک پارے ملیں جو زبان پرگھل جاتے تھے۔ ۔۔ جس چیز کو دل چاہیں قورمہ کہہ دیں، نہاری نما ہرچیز کو نہاری کہہ دیں۔میٹھے دودھ میں گھلی ہر مٹھائی رس ملائی ہے۔۔ اس لیئے ہم سب دوکان داروں سے دست بستہ کہتے ہیں، ’اب کوئی تازہ سا رکھ لواپنے پکوانوں کا نام ’۔
بریانی تو سبھی کھاتے ہیں اور شاید وہ لذت ڈھونڈتے ہوں جو ہندوستان ، پاکستان، دہلی ، لکھنﺅ، وغیرہ میں دیگ کی پکی بریانی اور پلاﺅ میں ہوتی تھی۔ اب توہر کوئی رنگدار چاولوں کو بریانی کہہ رہا ہے۔ پلاﺅ کا تو نام و نشان تک نہیں۔ ہندوستانی، پاکستانی، افغانی سب انہی رنگے چاولوں کو بریانی کہہ رہے ہیں، جن میں نزاکت تو کیا خوشبو تک نہیں ہے۔ شاید یہ بعض مغربی ملکو ں میں کثیر الثقافتی معاشروں کی دین ہے۔ گو یا، ’ہندی، و پاکی، ور افغان سبھی ایک ہوئے۔ تیری دوکان پہنچے تو سبھی ایک ہوئے۔‘
360