Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 575

تنظیم (آخری حصّہ)

اس جرائم پیشہ مافیا تنظیم کے بارے میں لکھنے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ کوئی دلچسپ داستان بیان کی جارہی ہے۔اس بارے میں بے شمار لوگ پہلے ہی سے واقف ہیں اس کے بارے میں پڑھ چکے ہیں فلمیں دیکھ چکے ہیں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آج کئی جرائم پیشہ تنظیمیں مافام کی راہ پر ہی چل رہی ہیں مقصد یہ ہے کہ ان کے ناپاک عزائم کو سمجھا جائے اور ان کے شر سے محفوظ رہا جائے بظاہر اچھّے نظر آنے والے اور فلاحی کام کرنے والے دراصل نقا ب اوڑھ کر بے وقوف بناتے ہیں اور سادہ لوح نوجوان ان کے جال میں آکر اس تنظیم میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس حد تک اس تنظیم کے وفادار ہوجاتے ہیں کہ اس کے لئے جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں ۔اور تنظیم کے بڑے یہ جانچتے ہیں کہ کس نوجوان کوکس جگہ استعمال کرنا ہے۔ان میں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو تنظیم کی بقاءکے لئے خوشی خوشی جیل بھی چلے جاتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ تنظیم کے وہ لوگ جو کسی کام کے نہیں رہتے یا جن پر شک ہوجاتا ہے کہ یہ کسی وقت تنظیم کے لئے خطرے کا باعث ہوسکتے ہیں ، یا ا ن میں بغاوت کے آثار نظر آرہے ہوتے ہیں تو ان کو قربانی کا بکرا بنادیا جاتا ہے تنظیم کے کسی بڑے شخص کے جرم میں جس سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی اور اس جرم میں اس بڑے آدمی پر شک ہوتا ہے تو ان لوگوں کو آگے کرکے یعنی قربانی کا بکرا بناکر جیل کی سیر کرادی جاتی ہے یا قتل کروادیا جاتا ہے اور نتیجے میں کیس ختم ہوجاتا ہے اور اصل آدمی کی جان چھوٹ جاتی ہے۔قربانی کا بکرا بنائے جاتے ہیں جیل میں تشدّد سے مرجاتے ہیں یا کسی شاہراہ پر بے دردی سے قتل کردئے جاتے ہیں تو تنظیم کے بڑے ہمدردی حاصل کرنے کے لئے احتجاج بھی کرتے ہیں اور اپنے ان کارکنوں کو بے گناہ اور معصوم بناکر پیش کرتے ہیں لیکن ہمیں ان سے یا ان کے گھر والوں سے ہمدردی یوں نہیں ہونا چاہئے کہ یہ تنظیم کے ساتھ تمام جرائم میں ملوّث رہے کسی کو قتل کرتے یا لوٹتے ہوئے کبھی رحم نہیں کیا غریبوں کے لئے عذاب بنے رہے تو یہ کسی رحم یا ہمدردی کے مستحق نہیں رہے۔ان کو سزا کسی بھی صورت میں ملی وہ ان کے جرائم کے لحاظ سے پھر بھی نا کافی تھی۔بہرحال ایک وقت ایسا آیا کے باسوں کا باس اس دنیا سے رخصت ہوگیا اللہ اسے جہنّم رسید کرے اس کے بعد تنظیم کے تمام چھوٹے چھوٹےباسوں میں طاقت کے حصول کے لئے زور آزمائی شروع ہوگئی ایک دوسرے کے آدمیوں کو قتل کرکے الزام نا معلوم افراد یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر لگادیا جاتا تھا پالیرمو شہر کی ایک بڑی نوجوان نسل تباہ ہوچکی تھی۔ یہ تنظیم اتنے منظّم طریقے سے بڑے بڑے جرائم میں ملوّث تھی کہ بعض اوقات لوگ یقین کرنے کو تیّار نہیں ہوتے تھے کہ یہ لوگ ایسے کام بھی کرسکتے ہیں۔قتل، اغوائ، بھتّہ خوری، اسمگلنگ سب جرائم ہورہے تھے لیکن یہ نہیں ظاہر ہوتا تھا کہ ان جرائم کے پیچھے یہی تنظیم ہے کیونکہ ان جرائم پر احتجاج کرنے والے بھی وہی بڑے بڑے لوگ اور سیاست دان شامل تھے جو در پردہ تنظیم کی مجرمانہ سرگر میوں میں ملوّث تھے۔کئی ماہرین اور اسکالر نے اس بارے میں لکھا اور ان کو بھی سوفیصد یقین نہیں تھا کہ اس طرح کی کوئی تنظیم ایسے کام کرسکتی ہے ان لکھنے والوں میں ” لیو پولدو فرانچیٹی “اور “جیوسپ پترے “شامل ہیں تنظیم کے گرگے اتنے پکّے ہوتے تھے کہ چاہے جان چلی جائے زبان نہیں کھولتے تھے ،ان لوگوں نے ایک دوسرے کو خود ہی معزّز نام دئیے ہوئے تھے جیسے۔۔مین آف ریسپیکٹ،مین آف آنرز، آنرز آف سوسائٹی۔اس دور کے لحاظ سے مافیا تنظیم ایک بہت بڑی جرائم پیشہ تنظیم تھی اٹلی میں اس کا مکمل خاتمہ تو نہ ہوسکا لیکن مختلف ٹگڑوں میں بٹ گئی اس تنظیم کے کچھ خطرناک لوگ امریکہ فرار ہوگئے اور وہاں انہوں نے نئے سرے سے تنظیم کی بنیاد ڈالی۔ ان تنظیموں میں اس وقت نیو یارک کی سب سے بری جرائم پیشہ تنظیم گیمبینو کرائم فیملی ہے جس میں سسلین مافیا تنظیم کے کئی لوگ شامل ہیں پچھلے ہفتے جب میں اس تنظیم کا پانچواں حصّہ لکھ رہا تھا نیو یارک میں گیمبینو کرائم فیملی کا ایک باس اور قتل ہوگیا جس کا نام ” فرینک کالی ” تھا اور اس کو قتل کرنے والا ایک چوبیس سالہ نوجوان تھا جس کا نام “انتھونی کامیلو “ہے وہ فرینک کے شاندار گھر ایک پک اپ میں گیا اور ڈرائیو وے میں کھڑی اس کی گاڑی کو ٹگّر ماری جس سے فرینک کی گاڑی کی نمبر پلیٹ گرگئی انتھونی پلیٹ اٹھاکر فرینک کے دروازے پر گیا اور گھنٹی بجائی فرینک باہر آکر اس سے باتیں کرنے لگا اسی دوران انتھونی نے گن نکالی اور فرینک کے جسم میں بارہ گولیاں اتار دیں۔پہلے پولیس کا خیال تھا کہ یہ گینگ وار ہے کیونکہ اس وقت نیو یارک میں پانچ جرائم پیشہ تنظیمیں کام کررہی ہیں اور ان میں کبھی کبھی آپس میں جنگ ہوجاتی ہے۔لیکن بعد کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ انتھونی کامیلو کا کسی جرائم پیشہ تنظیم سے تعلّق نہیں ہے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتا ہے اور پرامن زندگی گزار رہا ہے۔پولیس کا یہ بھی خیال ہے کہ شائید گیمبینو کرائم فیملی تنظیم کا کوئی شخص اس کو تنگ کررہا ہو اور اس نے بیزار ہوکر اس کے ایک باس کو قتل کردیا لیکن ابھی تک قتل کی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی ہے اور انتھونی کو اگلے ہفتے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔۔لیکن یہ تنظیمیں چھوٹی کہلاتی ہیں ان کا مقابلہ ان بڑی اور خطرناک تنظیموں سے نہیں کیا جاسکتا جو در پردہ خاموشی سے کام کررہی ہیں۔ماڈرن دور میں ان عالمی جرائم پیشہ تنظیموں کا طریقہءکار بالکل بدل چکا ہے۔ ان لوگوں نے چھوٹی موٹی چوریوں اور ڈکیتیوں کو خیر آبا د کہہ دیا ہے اب یہ بڑی تنظیمیں بڑے بڑے عالمی جرائم میں ملوّث ہیں۔دنیا کی تمام چھوٹی بڑی طاقتوں میں یہ پھیلے ہوئے ہیں ان کے افراد حکومت کے ایوانوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں عدلیہ میں ہر جگہ موجود ہیں۔اور یہ بہت منظّم طریقے سے کام کرتے ہیں حکومت میں ہوں یا حکومت سے باہر امریکہ میں ہوں یا یوروپ افریقہ یا ایشیا۔یہ لوگ جہاں بھی موجود ہیں ایک گروپ کی مانند ایک زنجیر کی طرح رہتے ہیں زنجیر کی کوئی ایک کڑی بھی ناکارہ ہونے لگے تو یہ لوگ اسے زنجیر سے نکال کر پھینک دیتے ہیں اور زنجیر دوبارہ جوڑ لیتے ہیں۔ہم اکثر سنتے ہیں کہ فلاں ملک کا سینیٹر یا گورنر یا کوئی وزیر یا مئیر کسی غیر قانونی دھندے میں پکڑا گیا اور اسے سزا ہوگئی اور ہم خوب واہ واہ کرتے ہیں لیکن بعض اوقات حقیقت مختلف ہوتی ہے یہ شخص اسی زنجیر کی کڑی ہوتا ہے جو اپنی کسی غلطی یا بے وقوفی کی وجہ سے اپنے جرم کو سر عام کردیتا ہے پھر زنجیر اس کی مدد نہیں کرتی ہے کیوں کہ یہ حلفیہ معاہدہ ہوتا ہے لہذا اسے باہر کردیا جاتا ہے اور یہ شخص کسی کا نام بھی نہیں لے سکتا ورنہ یہ خود اور اس کی فیملی کو بعد میں بھگتنا پڑے گا۔ان بڑی بڑی تنظیموں کو چھوٹے چھوٹے ممالک کی حکومتیں تبدیل کرنے ،بڑے ممالک کی بڑی شخصیات کو راستے سے ہٹانے ملکوں میں انتشار پھیلانے اور بڑے بڑے عالمی اور سیاسی جرائم کے لئے وقتی طور پر کرائے پر لیا جاتا ہے۔ کسی ملک کی گوورنمنٹ کی ایجینسیوں کو جب کسی دوسرے ملک میں انتشار پھیلانے کا ٹاسک دیا جاتا ہے اور اس ایجینسی کے لوگ خود نہیں کرسکتے تو وہ اس ملک میں موجود ایسی ہی تنظیموں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔اور وقت آنے پر تحفّظ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔یہ تمام تنظیمیں ہمارے ملک سمیت ہر جگہ سرگرم عمل ہیں بظاہر ہمارے آس پاس ہمارے ہمدرد جو لوگ نظر آتے ہیں یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہیں حتی’ کہ وزارتوں میں بھی موجود ہیں کوئی بعید نہیں کہ یہ کسی بڑی تنظیم سے منسلک ہوں اور ہمارے معاشرے اور ہمارے ملک کے خلا ف کام کررہے ہوں۔بظاہر تو یہ ہم وطن ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کو ملک سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے کیوں کہ ان کو یہ یقین بھی دلادیا جاتا ہے کہ برا وقت آنے پر دوسرے ملک بھیج دیا جائے کا اور غدّاری کا معاوضہ تو پہلے ہی باہر منتقل ہوتا رہتا ہے۔لہذا ہمارے معاشرے یا ہمارے ملک کے خلاف کوئی بھی بات ہو ہمیں بہت سوچ سمجھ کر اس پر یقین کرنا چا ہئے اور معاشرے کے ان بدنما داغوں سے اپنے آپ کو اپنی اولادوں کو اور اپنے ملک و معاشرے کو بچانے کی کوشش کرنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں