میرے آقا نے لشکر کو روانگی کا حکم دیا جب لشکر تیار ہو گیا تو دوسرا حکم دیا راستے میں کھڑی فصلوں کو نقصان نہ پہنچے، جانوروں کی حفاظت کی جائے، بزرگوں، عورتوں اور مقابلے میں نہ آنے والوں کی جان و مال کو محفوظ بنایا جائے۔ امان مانگنے والوں کو عام معافی دی جائے۔ ایک معرکہ میں مخالف لشکر کا سب سے طاقتور پہلوان آگے بڑھا اور للکار کر مسلمانوں کے لشکر کو مخاطب ہوا کہ ”کون ہے جو میرے مقابلے پر آکر اپنی جان گنوائے“۔ مولا علی شیر خدا اسلامی لشکر کی جانب سے اس پہلوان کے مقابلے پر اس کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ مقابلہ شروع ہوا، کچھ ہی دیر میں شیر خداؓ نے اس پہلوان کو پچھاڑ دیا اور چاہا کہ اس کی گردن سر سے جدا کریں کہ یکایک اس پہلوان نے آپ کے چہرہ مبارک پر لعاب دھن پھینک دیا۔ شیر خدا غصہ میں آکر چاہتے تھے کہ اس کو قتل کردیں مگر دونوں طرف کے لشکر کے لوگ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ شیر خدا اس پہلوان کو اس ہی حالت میں زندہ چھوڑ کر کھڑے ہوگئے۔ پہلوان نے حیران ہو کر دیکھا، تو شیر خدا نے جو ارشاد فرمایا ”میں نے لشکر اسلام کے مخالف پہلوان کو اسلام کی قوت سے پچھاڑا اور چاہتا تھا کہ اس کو دین کی خاطر قتل کرکے اپنے دین کی قوت کا اظہار کروں جب اس کے اس عمل سے مجھ میں ذاتی غصہ پیدا ہوا تو میں نے اپنی ذات کی پرواہ کئے بغیر اس کو زندہ چھوڑ دیا کہ اس میں میرا ذاتی عناد نہیں“۔ ہمارے نبی کے فرمان پر من و عن عمل کرکے شیر خداؓ نے ایک سچے عاشق نبی کا نمونہ دنیا کے سامنے ہمیشہ کے لئے پیش کردیا کہ نبی کے عاشق کو نبی کے ایک ایک فرمان پر دل و جان سے عمل پیرا ہوں مگر موجودہ زمانے میں جو عاشق رسول کا نعرہ لگا کر نہ صرف عشق نبی کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ وہ اس کے دین اسلام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں آج کی دنیا میں اسلام کی تعلیمات جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہیں جو کہ اسلام کی آفاقی خصوصیات کے باعث دنیا کے لوگ اس کی تعلیمات سے متاثر ہو کر دین اسلام میں شمولیت اختیار کررہے ہیں وہ قوتیں جو دین اسلام کی تعلیمات کے باعث اس سے خوفزدہ ہیں وہ تمام قوتیں مل کر بھی اسلام کو نقصان نہیں پہنچا پا رہی ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کے آگے بے بس محسوس کررہی ہیں جب کہ ان کے برخلاف جو اپنے آپ کو مسلمان کہہ رہی ہیں جو لوگ اپنے آپ کو عاشق رسول بنا کر دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں وہ ہی طبقہ اسلام کو بدنام کررہے ہیں ان میں سے کچھ لوگ ہمارے نبی کے عشق کو دنیا کے سامنے بہت منفی انداز میں پیش کررہے ہیں۔ موجودہ دور میں دنیا کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے سب سے زیادہ نقصان ان کی وجہ سے اسلام کو پہنچ رہا ہے۔ جو تقریباً دنیا کے ایک بڑے علاقے کو متاثر کررہا ہے، کبھی وہ داعش کے نام سے دنیا کو بربریت اور سفاکی کا پیغام پہنچا رہی ہیں جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ شاید اسلام کی تعلیمات کے مطابق داعش کے حوالے سے دنیا میں یہ بھی تاثر ہے کہ اس کو بہت سے منفی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے یہ تاثر مسلمانوں میں بھی زیادہ عام ہے کہ داعش مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر استعمال کیا جارہا ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر اسلام مخالف قوتیں اس کو بدنام کرنے کے لئے داعش کو استعمال کررہی ہیں تو اس میں جو استعمال ہو رہا ہے جو ان کا آلہ کار بنا ہوا ہے وہ مسلمان ہی ہے یا غیر مسلمان۔ داعش میں کتنے غیر مسلمان ہیں، دیکھا جائے تو اس میں جو بھی دکھائی دے رہا ہے وہ بظاہر مسلمان ہی ہے یہ جو مسلمان ہیں ان کی وجہ سے اسلام کو نقصان پہنچ رہا ہے ان کے ظلم و بربیت کا سب سے زیادہ نشانہ صرف مسلمان ہی بن رہے ہیں دنیا میں ہر اس علاقے میں داعش کام کررہی ہے جہاں مسلمان ہیں یا اس کی کارروائیاں مغربی ممالک میں بھی ہو رہی ہیں ان علاقوں میں زیادہ ہو رہی ہیں جہاں کے لوگوں میں اسلام کی تعلیمات زیادہ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ داعش کی کارروائیوں کی وجہ سے ایک طرف مسلمانوں میں خانہ جنگی کے باعث بے پناہ ہلاکتیں ہو رہی ہیں، تباہی اور بربادی پھیل رہی ہے، آپس میں خون ریزی ہو رہی ہے، لوگ وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، دنیا بھر میں بے کسی کی زندگیاں گزارنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ داعش وہ بین الاقوامی تنظیم ہے جو پوری دنیا میں دہشت اور خون ریزی کی وجہ سے دین اسلام کو بدنام کررہی ہے۔
اس ہی طرح کچھ دہشت گرد تنظمیں ہیں جو اپنے محدود علاقوں میں اس ہی طرح کی کارروائیاں کرنے میں مصروف ہیں اور اسلام کو بے پناہ نقصان پہنچا رہی ہیں۔ افریقی علاقوں میں باکو حرام نام کی تنظیم نے دہشت گردی مچائی ہوئی ہے کہ ان کی کارروائیوں کی وجہ سے بستیوں کی بستیاں برباد ہو رہی ہیں۔ معصوم اسلو کی بچیوں کو اغواءکیا جاتا ہے، دنیا بھر میں ان اقدامات کی وجہ سے اسلامی تعلیمات کو مزید نقصان ہو رہا ہے، اس ہی طرح ہمارے علاقے میں تحریک طالبان پاکستان، پاکستان اور افغانستان کے عوام کو ایک طرف نشانہ بنا رہے ہیں، دوسری طرف وہ بھی اسلامی تعلیمات کی منفی تشریح پیش کررہے ہیں، یہ لوگ بظاہر مسلمان دکھائی دیتے ہیں ان کی وضع قطع رہن سہن مسلمانوں جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کو اللہ اکبر کے نعرہ لگا لگا کر تباہ و برباد کررہے ہیں، یہ اپنے علاقے میں جو بھی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ حقیقتاً اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے وہ اسکولوں پر دھماکہ کررہے ہیں، عام مسلمانوں کو ہلاک کررہے ہیں، یہ ایک طرف مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کے لئے تباہی اور بربادی کا باعث بن رہے ہیں، دوسری طرف بین الاقوامی میڈیا ان کے اقدامات کو ساری دنیا کے سامنے اسلام کو بدنام کرنے میں استعمال کررہا ہے یہ ہی صورت حال ہمارے پاکستان کی ہے جہاں پر لوگ انتہا پسندی اور فرقہ بندی میں مصروف ہیں ایک دوسرے پر کفر کے فتویٰ لگا رہے ہیں اور اپنے اقدامات سے نہ صرف اپنے فرقے کو بدنام کررہے ہیں، ساتھ ساتھ اسلام کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس کو بھی میڈیا منفی انداز میں پیش کررہا ہے۔ اور ہم اپنے نبی کی تعلیمات کو فراموش کررہے ہیں۔ اپنی خواہشات اور رجحانات کو مذہبی رنگ دے کر اپنے آپ کو عاشق رسول کے لبادے میں پیش کررہے ہیں۔ وہ لبادے تو عاشق رسول کے استعمال کررہے ہیں، کام وہ برعکس کررہے ہیں جو ہمارے آقا کی تعلیمات میں دی گئی ہیں ہمارے آقا کے فرمان ان کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت بھی دنیا بھر کے لئے مشعل راہ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے عاشق رسول کہنے والے کیا اپنے اس رحمت اللعالمین کی ترغیب کررہے ہیں۔ جنہوں نے ایک عالم کو رحمت مجسم بن کر دکھایا کہ اپنی ذات کی دشمن ہندہ میرے آقا کے ہم شکل ان کے چچا حضرت حمزہ کو شہید کرکے ان کے سینہ مبارک کو چاک کرکے ان کا کلیجہ مبارک چبایا۔ اس کو فتح مکہ پر نہ صرف معاف کردیا بلکہ اس کے گھر کو امان کی جگہ کی حیثیت دی۔ ہماری سول سوسائٹی جس میں ایسے افراد پیدا ہو رہے ہیں جو اپنے ذاتی احساسات و جذبات کو مذہبی رنگ دے کر دوسرے مسلمان کے خون بہانے سے بھی دریغ نہیں کررہا ہے وہ توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا ہے۔ موجودہ زمانے میں بین الاقوامی تنظیم داعش بھی اپنی دہشت گردی سے توہین رسالت کی مرتکب ہورہی ہے تو دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان مسلمانوں کے سر کاٹ کر ان کے سروں سے کھیل کر بھی توہین رسالت کررہی ہے۔ ہمارے ملک پاکستان کے فرقہ پرست ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر توہین رسالت کررہی ہے تو ہمارے وہ مولوی حضرات جو معصوم لوگوں کے جذبات بھڑکا کر لوگوں کو مشتعل کررہے ہیں وہ بھی توہین رسالت کے ذمہ دار ہیں وہ لوگ بھی جو ان کی باتوں میں شدت جذبات میں آکر دوسروں کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو توہین رسالت کے مرتکب تو ہو ہی رہے بیں بلکہ وہ لوگ بھی جو ان کے ان اقدامات کی خاموش حمایت کررہے ہیں ہیں وہ بھی توہین رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ وہ اعلیٰ حیثیت کے افراد بھی جو قاتل کو کورٹ میں گلدستہ پیش کرکے بھی توہین رسالت کے مرتکب ہیں اور اپنے آپ کو عاشق رسول بنا کر پیش کررہے ہیں۔
