کسی سے بات کیجئے! 447

جب آس کی کرنیں بجھ جائیں (پہلا حصہ)

راستے کی اڑتی دھول سفید دوپٹے میں رچتی جاتی تھی، ماتھے پہ آئے پسینے کو اس نے سفید دوپٹے سے صاف کیا اور تپتے سورج کی طرف گھور کے دیکھا جیسے اس کے گھورنے سے وہ ٹل جائے گا۔ وہ اور تاب سے چمکنے لگا۔ دفعتاً اس کا دھیان جوتی کے عنقریب ٹوٹتی ہوئے تنی کی طرف چلاگیا۔ ایک اور فکر نے آگھیرا کہ اگر یہ آدھے راستے میں ہی ٹوٹ گئی تو۔۔۔دوپٹہ پسینے پونچھ پونچھ کے سارا میلا ہوچکا تھا۔ابھی پندرہ منٹ کا راستہ باقی تھا کتنا دل چاہا کہ رکشہ کر لے مگر اس نے ارادہ ترک کر دیا کہ اس پندرہ منٹ کے راستے پر رکشے کی قربانی دے کر وہ شام میں بچوں کے ساتھ اچھا کھانا کھا لے گی۔ اس خیال کے آتے ہی اس کی ہمت بندھ گئی اور اپنا من پسند کھانا کھاتے بچوں کے کھلتے چہرے اس کی آنکھوں سے گزرے تو اس چلچلاتی دھوپ میں بھی اطمینان کا سانس اس کے حلق سے اترا اور جانے کدھر سے ہوا کا ہلکا سا جھونکا سارا پسینہ ٹھنڈا کر گیا۔
بچے۔۔۔ “ارے وہ بدبخت ایسا جادو چلاتی ہے میرے بچوں پر کہ سارا ٹائم اس کی گود سے لگ کے بیٹھے رہتے ہیں” اس کی جیٹھانی کا جب دل چاہتا اسے کھری کھری سنادیتی “اپنے تو ہونہ سکے دوسروں کے بچوں کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہے” دیورانی بھی اپنا حصہ ڈال دیتی اور وہ چھ ماہ کی اس کی بیٹی کو نہلا دھلا کے گود میں لٹا کے سلارہی تھی نہ جانے کونسے احساس کو تسکین ملتی تھی کہ ان سارے طعنوں میں بھی اس کا دل ہمکتا رہتا ان طعنہ زن عورتوں کے بچوں کے پیچھے۔ وہ کسی کو جواب تک نہ دیتی۔
سارا ٹائم خود کو گھر کے کاموں میں لگائے رکھتی اور پھر ایک تاریک گھٹے ہوئے کمرے میں چلی جاتی اور اک معذور شخص کی ناز برداریاں کرتی۔ اس یقین پر کہ اس کی معذوری کبھی نہ کبھی تو دور ہو جائے گی وہ ہر روز اس گھٹن زدہ کمرے میں پرانی مشین پر لوگوں کے ٹراو¿زر سیا کرتی۔ سلائی اس نے بس برائے نام ہی سیکھی تھی کسے معلوم تھا کہ وقت پڑنے پر اسے لوگوں کے ٹراو¿زر سینے پڑ جائیں گے اور وہ بھی کتنی منتیں کرکے پچھلے محلے کے ایک درزی سے بمشکل لاپاتی اور وہ بڈھا درزی چند ٹراو¿زروں کے بدلے اپنی بکواس سے اپنی گندی تعفن زدہ بڑھاپے کی بھڑاس نکالتا رہتا۔وہ جتنی دیر وہاں رہتی خاموشی سے سنتی رہتی۔ اسے اس بڈھے کی ہراسمنٹ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا اور نہ ہی اس نے چوک میں کھڑے ہو کر اس ہراسمنٹ کے خلاف آواز بلند کرنے کا سوچا کہ پیٹ کی آگ بڈھے کی گندی بھڑاس کے آگے زیادہ خون چوستی تھی آنتیں تک دکھنے لگتی تھیں جب تین چار دن تک ٹراو¿زر نہ مل پاتے۔ وہ بار بار دکان کا چکر کاٹتی ، اسے دیکھ کر بڈھے کے پیلے دانت باہر آجاتے تو دوسری طرف جوان لڑکے ایک دوسرے کو آنکھیں مارتے۔
وہ اپنی چادر سنبھالتی ہوئی آنکھیں جھکائے خاموشی سے واپس آجاتی، بھوک کی بھٹی جلتی تو اندھیرا کمرہ اور اندھیرا ہوجاتا۔ پیٹ خالی ہوتا تو فالج زدہ شخص چیخنے اور کراہنے لگ جاتا۔ وہ سوچتی اسے دوا دے دے پر پھر ڈر جاتی کہ کہیں بھوکے پیٹ دوا دی تو یہ لاغر کہیں کمزوری سے مر ہی نہ جائے۔ وہ دبے قدموں برآمدے کے ساتھ بنے ہوئے اندھیرے کچن میں اندھیرے میں ہاتھ مارتی تو فریج کو تالا لگا ہوا ہوتا۔ ڈرتے مارے کچن کی لائٹ بھی آن نہ کرپاتی۔
کسی کے کھانسنے کی آواز سے چونکی تو پیچھے اس کی جٹھانی کا بھائی تھا جس نے موقع ملتے ہی اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ اس کی متوقع چیخ دبائی جاسکے اس کے ہاتھ میں پیچھے سے شاید لکڑی کی ڈوئی آئی اس نے زور سے اس کے دے ماری اور بدحواس سی کچن سے اپنے کمرے کے طرف بھاگتی گئی۔ بستر میں بھوک سے کروٹیں بدلتا ہوا شخص گھبرا گیا اور وہ بچوں کی طرح اس کے گلے سے لگ کے رونے لگ گئی۔ وہ سمجھ گیا ضرور کسی سے ڈانٹ جھاڑ سن کے آئی ہے اسے اس وقت اپنی قل ھواللہ پڑھتی آنتیں بھول گئیں اور اپنی لاچاری اور بے بسی پر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں
“ تم میرے ساتھ یہ لاچاری اور بے بسی کی سزا کب تک بھگتو گی۔ تمھیں کہتا ہوں کہ میری بیماری کے پیچھے اپنی زندگی کیوں جھونک رہی ہو۔ سارا دن، ساری رات مجھ ادھ موئے وجود کو سنبھالتی ہو ، میرے ہی اپنوں کے طعنوں سے چھلنی ہوتی رہتی ہو۔ان دس سالوں میں تمھاری جھولی میں سوائے غربت اور بیماری کے میں نے کیا ڈالا ہے۔ تم چلی کیوں نہیں جاتی ہو “ اس کی ٹانگوں میں عجب بے چینی ہورہی تھی مگر وہ انھیں ہلا تک نہ سکتا تھا کیسا بے بس تھا وہ اور پھر وہ تو آنسو بہاتے بہاتے سوگئی اس کی گود میں دو ٹوٹی ہوئی سوکھی روٹیاں گر پڑیں جنھیں ناجانے کب سے وہ اپنے ہاتھوں میں دبوچے بیٹھی سسکتی جارہی تھی۔ روٹیوں پر سالن کی جگہ دونوں کی بے بسی کا نمک تھا۔
عید ہوتی تو چاروں بھائی اس کیلئے الگ الگ عیدیاں لاتے۔ چوڑیاں، مہندی، بندے، ہار اور پھر عید کے دن سج دھج کے اماں کے ہاتھ کی بنی ہوئی آلو چاٹ کھانا اور سہیلیوں کے سنگ ہنسی مذاق میں سارا دن گزارنا۔ پڑھائی میں دل لگتاکوئی نہ تھا اور کچھ سیکھنے سکھانے کی طبیعت نہیں ہوتی تھی۔ چار بھائیوں کی اکلوتی بہن، ماں اور باپ کی آنکھوں کا تارا۔ ان کے منہ پہ بس ہر لمحہ اس کا ہی ذکر رہتا۔ ریشماں کو یہ چائئے ریشماں کو وہ چاہئے۔ آج ریشماں نے یہ پکایا ، مرچیں اور نمک اتنا تیز تھا مگر مجال جو باپ بھائیوں کے منہ میں سے کوئی “سی” تک نکلی ہو الٹا سب نے اسے شاباشی کیلئے پیسے بھی دئئے کہ ایسا کریلوں کا سالن انھوں نے پہلے کبھی نہ کھایا تھا اور اگلے دن چلی ریشماں رکشے میں بیٹھ کر اماں کے ساتھ سوٹ اور میچنگ جوتا، چوڑیاں اور پراندہ لینے اور کان کی بالیاں بھی۔
صبح فجر کے ٹائم آنکھ کھلی تو جلدی سے اٹھ کے باہر والے نل کی طرف بھاگی کہ کہیں فجر کا ٹائم نہ نکل جائے۔ رات جو ہوا اندھیرے میں نکلنے کی ہمت ہی نہ ہوپارہی تھی سو کانپتے ہاتھوں سے اس نے صحن کی اکلوتی بتی جلادی۔ سہمی ہوئی تو وہ پہلے ہی بری طرح تھی۔ دیورانی کی تڑخ سی آواز سن کے ایک دم اچھل پڑی” ارے لائٹ بند کرو بھئی تمھارے تو نہ بچے ہیں اور نہ میاں کے نخرے سویرے منہ اندھیرے اٹھ کے بیٹھ ہوگئی ہو دوسروں کا سکون برباد کرنے” سر پہ تولیہ لپیٹے غسل خانے سے نکلتی ہوئی دیورانی اسے گھورتی ہوئی بولتی چلی گئی۔ اس نے اس کی ڈانٹ ان سنی کرکے جلدی جلدی پانے کے چھپاکے مار کے وضو کیا اور بتی بند کر کے تیز تیز اپنے تاریک کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ اس نے زور سے کمرے کا دروازہ بند کیا تو ہی اسے کہیں سکون کا سانس نصیب ہوا۔
نماز پڑھنے کیلئے دوپٹہ پھیلایا تو وہ بیچ سے سارا پھٹا ہوا تھا کل رات جٹھانی کے بھائی سے مڈ بھیڑ میں اسے پتہ بھی نہیں چلا کہ کیا کیا اپنی جگہ نہ رہا تھا
الماری سے دوسرا دوپٹہ نکال کر نماز پڑھتے پڑھتے اس کے آنسو نہیں تھم رہے تھے “یااللہ اتنی بے بسی، “ وہ بیڈ کے کنارے سے لگی روتی رہی۔ وہ جاگ چکا تھا اور بے چین ہورہا تھا کہ آج ریشماں ایسے کیوں روئے جارہی ہے رات سے۔ روز ہی سب سے ڈانٹ جھاڑ سنتی ہے مگر بھول بھال جاتی ہے پر آج تو چپ ہی نہیں ہوتی “ریشماں او ریشماں! کیوں روئے جارہی ہے پاگلوں کی طرح “ وہ چپ رہی تو وہ اور بے چین ہونے لگا “ اب مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھتی کہ اپنے رونے کی وجہ ہی بتادے”پر وہ کچھ نہ بولی بس روئے گئی
“ارے وہ تم سے عمر میں چھوٹا ہے بلکہ کافی چھوٹا” اور ریشماں شیشے کے سامنے کھڑی بس سجتی جاتی اور مسکراتی جاتی۔ “ چھوٹا ہے تو کیا ہوا لڑکیاں بھی تو اپنے سے بڑی عمر کے مردوں سے شادیاں کرتی ہیں اور پھر حضرت خدیجہ ہمارے نبی سے پورے 15 سال بڑی تھیں۔ ویسے بھی وہ مجھے پسند کرتا ہے محبت کرتا ہے مجھ سے “ ریشماں نے ایک جھٹکے سے اپنا پراندہ پشت پہ ڈالا اور آنکھوں میں بھر بھر سرمہ ڈالا۔ اس نے ہمیشہ سے سب سے محبتیں ہی سمیٹی تھیں اور اب ایک جواں محبت اپنا دل وا کئے اس کی منتظر تھی۔ سہیل چاچی کا بھانجا تھا۔ سب کا دیکھا بھالا۔ اسے ہمیشہ سے سجی سنوری گلابی گلابی سی ریشماں اچھی لگتی تھی اور یہ پسند جانے کب محبت میں بدل گئی اور گھر والوں کی بھرپور مخالفت کے باوجود وہ خود سے پانچ سال بڑی ریشماں کو بیاہ کے گھر لے آیا۔ سارے بھائیوں کا مشترکہ کاروبار تھا کریانے کا بہت بڑا سٹور تھا پاس کے بازار میں۔ ہنستا بستا گھرانا تھا۔ کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ ریشماں کی کوئی بہن نہ تھی اسے بڑا شوق ہوتا تھا بڑے سی جوائینٹ فیملی میں رہنے کا۔ سہیل کے چھ بھائی تھے اور دو بہنیں۔ سب شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔ سہیل سےچھوٹا بس ایک بھائی تھا۔ ریشماں آتے ہی سب سے گھل مل گئی اتنا کہ میکے جانے کا نام تک نہ لیتی تھی۔ سہیل کی بے تحاشا محبت کو اپنے رنگدار پراندے میں پروئے اسے مسکرانے سے ہی فرصت نہ ملتی۔ وہ تھی بھی اتنی پیاری کہ پورے گھر کادل موہ لیا۔ کیا بچے کیا بڑے سب کا خیال رکھنے والی ریشماں کی ماں کو دن رات ایک ہی خیال ستانے لگا کہ آخر اس کی بیٹی کی گود ہری کیوں نہیں ہورہی اس نے آئے روز ریشماں کو گھر بلانا اور مختلف لیڈی ڈاکٹرز کو دکھانا شروع کر دیا۔ ہر ڈاکٹر نے سب ٹھیک کا کہہ کے اللہ کی مرضی کے نام تسلی دے دینی پر ماں کو تسلی کدھر ہوتی تھی۔ اب تو ریشماں بھی پریشان رہنے لگی تھی دو سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا تھا۔ ماں نے طرح طرح کے ٹوٹکے اور ٹونے کرانے پر جانے اللہ کی کیا مرضی تھی۔ “نہ تو بڈھی ہوگئی ہے یا میں بڈھا ہوگیا ہوں؟ ابھی ہم دونوں جوان ہیں “ سہیل نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا تو وہ شرماگئی مگر اندر اندر ایک خواہش اب حسرت کی شکل دھارنے لگ گئی تھی۔ نمازوں کے بعد کے وظیفے لمبے ہوگئے تھے اور ہر جمعرات کو باقاعدگی سے نیاز الگ ہونے لگی تھی۔ چھوٹے بچوں میں گولیاں ٹافیاں بانٹنا اور ہر جمعرات کو مسجد میں کھانا بھیجنا۔ فقیر کی آواز سن کے بھاگ کر آٹا کا کٹورا بھر کے لے آنا کہ شاید کسی کی سنی جائے پر کسی کی بھی نہ سنی گئی اور چار سال بیت گئے۔ اب ریشماں مسکراتی تو اس کی آنکھیں ساتھ نہ دیتی تھیں۔ وہ کبھی اپنی دیورانی اور جیٹھانی کے بچوں کے نرم ہاتھ چھوتی تو کبھی ان کے چھوٹے چھوٹے پاو¿ں چوم لیتی۔ آنکھیں بھیگنے لگتیں تو اپنے کمرے کی طرف بھاگ جاتی۔ اس کا جہیز سے سجا سجایا روشن کمرہ اور اس کی ہر ہر چیز میں رچی بسی سہیل کی خوشبو بھی اس کا دل نہ بہلا پاتی۔ سارے سسرال کا خیال رکھنے والی نٹ کھٹ سی ریشماں خاموش ہوتی جارہی تھی۔ ایک خواہش ، ایک امید اب صرف حسرت اور مایوسی میں بدل چکے تھے پر پھر کہیں سے آواز آتی۔ “ان اللہ معالصابرین” اور اس کے دل میں اطمینان اترنےلگتا۔
یہ اطمینان ، یہ خوشیاں کیسی عارضی ہوتی ہیں۔ اس نے رنگدار پراندہ لگانا چھوڑ دیا تھا نہ آنکھوں میں بھر بھر سرمہ ڈالتی۔ بس سر تاپا دعا بنی رہتی۔ ایسی دعا جس کی ہر سانس صرف قبولے جانے کے نام پر چلتی ہو پر وہ پگلی کب جانتی تھی کہ بہت سی دعائیں آسمانوں کی طرف بھیج دی جاتی ہیں کہ اوپر والے کا الگ ہی نظام ہے۔
اس کی اداس صورت دیکھ دیکھ کے سہیل اس کا دل بہلاتا رہتا اور وہ خدا کا شکر ادا کرتی کہ اسے سہیل جیسا جیون ساتھی ملا جس نے کبھی دوسرے مردوں کی طرح اسے اولاد نہ ہونے کا طعنہ نہ دیا بلکہ جب بھی روتی وہ اسے تسلیاں دینے بیٹھ جاتا۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی نظریں اتارتی۔ دعائیں پڑھ پڑھ کے اس پہ پھونکتی کہ وہ صرف اس سے عمر میں چھوٹا ہی نہ تھا۔ (جاری ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں