امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 411

جمہوریت: امریکی اور پاکستانی افواج کا کردار

کل جب یہ تحریر آپ کی نظر میں آئے گی، امریکہ میں انتقالِ اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ امریکی جمہوریت اس تبدیلی کے دوران اپنی تاریخ کے نہایت سیاہ دور سے گزری ہے۔ اس موضوع پر بات ہوتی رہے گی، جو یقینا ایک اہم موضوع ہے۔
جو اہم بات اس سارے کھٹراگ میں قابلِ غور ہے ، وہ اس ضمن میں امریکی فوج کا کردار ہے۔ امریکہ کے آئین کے مطابق امریکی فوج صدر کے براہِ راست طابع ہوتی ہے۔ وہ اس کا کمانڈر انچیف ہوتا ہے۔ امریکی آئین لکھتے وقت صدر کو بری فوج، بحری فوج، اور نیم فوجی دستوں یا نیشنل گارڈ کا سپریم سربراہ تعینات کیا گیا تھا۔ فضائیہ کے قائم ہونے کا بعد صدر کا آئینی اقتدار فضا ئیہ پر بھی منطبق ہو گیا۔ صدر کی امداد کے لیئے وزیرِ دفاع ہوتا ہے، اور صدر اس کے مشوروں پر عمل کرتا ہے۔لیکن اس پر ایسا کرنا لازم نہیں ہے۔
فوجی معاملات میں صدر کا اختیار ، ایک عرصہ تک لامحدود رہا۔ لیکن ویتنام کی جنگ کے نتیجہ میں جس میں امریکی افواج ایک طویل عرصہ تک مشرقِ بعید میں رہیں، اور جنگ ہارتی رہیں، اس زمانہ میں امریکی کانگریس نے بے اطمینانی کا اظہار کیا، کیونکہ یہ لامحدود جنگ کانگریس سے کسی بھی مشاورت کے بغیر جاری رکھی گئی تھی۔پھر یہ خبر بھی آئی کے صدر نکسن نے بلا کسی جواز کمبوڈیا خفیہ حملہ کر دیا تھا۔ اور وہاں سنگین جنگی جرائم کا بھی ارتکاب کیا گیا تھا۔
ان خبروں کے بعد کانگریس میں حزبِ اقتدار نے جو خود صدر نکسن کی جماعت تھی ، اور حزبِ اختلاف نے باہمی اتفاق سے ” جنگ کرنے کے اختیار “ یا War Powers Resolution کے نام سے صدر کے اختیا ر کو محدود کیا۔ یہ طے کیا گیا کہ امریکی صدر کوئی بھی جنگ شروع کرنے کے اڑتالیس گھنٹو ں کے اندر کانگریس کو مطلع کرنے کا پابند ہے۔ اور یہ کہ ایسی کسی بھی جنگ میں مریکہ افواج دو ماہ سے زیادہ کسی غیر ملک میں نہیں ر ہ سکتیں۔ اور اس میں ایک ماہ کی اضافی چھوٹ دی جا سکتی ہے۔
صدر نکسن نے اولاً اس قانو ن پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ جسے ویٹو کرنا بھی کہتے ہیں۔ لیکن پھر ارکین ِ کانگریس نے دو تہائی اکثریت سے یہ قانون منظور کر لیا۔ جسے Veto Proof کہا جاتا ہے، صدر دو تہائی اکثریت سے نافذہونے والے کسی قانون کو ردنہیں کر سکتا۔ بعد میں صدر نکسن کو دیگر سیاسی جرائم کے نتیجہ میں صدارت چھوڑنا پڑی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس پاپندگی کو کوئی بھی صدر خوشی سے قبول نہیں کرتا۔
اس قانون کی خلاف ورزی کی اہم مثال ، صدر کلنٹن کی بوسنیا کی جنگ میں شرکت تھی۔ یہ دخل اندازی وہاں بوسنیا کے مسلمانوں کو نسل کشی سے بچانے کے لیئے کی گئی تھی۔ اس خلاف ورزی کی صدر کو کوئی سزا نہیں ملی تھی۔
امریکی افواج ہر حال میں آئین کی مکمل پابندی کرنے پر مجبور ہیں ، وہاں کوئی بھی جنرل نہ تو سیاست میں دخل دے سکتا ہے، نہ اس ضمن میں اپنی مرضی کی سیاسی جماعت کی حمایت کر سکتا ہے۔ افواج سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی اسے سیاسی عمل میں شامل ہونے کے لیئے ایک معینہ مدت کا انتظار کرنا پڑتا ہے ، یا خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ جو آسانی سے نہیں ملتی۔
خود امریکی سیاستدان اور صدر بھی افواج کو سیاست میں نہیں گھسیٹتے۔ وہ سابق فوجی افسرا ن کو سیاسی اختیار دے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر اختیارات کے لیئے کانگریس سے منظوری لینا لازم ہوتا ہے۔ اس عمل پر امریکی صحافت یا میڈیا کی گہری نظر ہوتی ہے۔ اور اکثر ایسے افرا دکے پس منظر اخباروں یا جرائد میں شایع ہوتے ہیں۔ اور ان کی عہدوں پر منظوری پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
حال ہی میں صدر ٹرمپ نے مخالفین کے ایک سیاسی احتجاج پر قابو پانے کے لیئے امریکی نیشنل گارڈ کو استعمال کے کی کوشش تھی، اور اس موقع پر ان کے ساتھ ایک فوجی جنرل دیکھے گئے۔ اس پر شور اٹھا۔ اور فوراً ہی شور مچنے پر نہ صرف ان جنرل کو بلکہ افواج کو مجموعی وضاحت کرنا شروع کی۔ آج کل انتقالِ اقتدار کے موقع پر تقریباً پچیس ہزار فوجی دارالحکومت میں تعینات لیئے گئے ہیں۔ یہ تاریخ کا حیران کن باب ہے۔ لیکن یہ سب بھی کانگریس کی پولس اور واشنگٹن کی میئر کے احکامات اور مشورے کے پابند ہیں۔
امرکی افواج کے سیاسی کردا کا موازنہ، پاکستان کی افوج سے کرنا دیوانے کی بڑ سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن ا س دیوانے پن کی ضرورت دائیمی ہے۔ یہ خیال یا قیاس عام ہے کہ پاکستان کی افواج کے چند اعلیٰ افسران ، قیام پاکستان کے زمانے ہی سے خفیہ یا علانیہ یا سیاست میں دخل اندازی کرتے رہے ہیں اور بارہا ، آئین کو تلف کر کے براہِ راست حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ آپ کو جنرل اسکندر مرزا، جنرل ایوب، یحییٰ خان، ضیاالحق، اور جنرل مشرف کے نام یاد تو ہوں گے۔ ان کے نزدیک یہ عقل کل تھے،اور پاکستان کی سلامتی ، اور استحکام ، کو اپنی ذاتی صوابدید قرار دیتے رہے ہیں۔ اس قبیح عمل پر کوئی بھی تنقید پاکستان کی سلامتی پر تنقید قرار دی جاتی ہے۔ اس تنقید میں ان کے اپنے شعبہ جات، زور جبر، اور زر خرید بے ضمیر صحافی شامل ہوتے ہیں۔
اہلِ فکر پر دانش ہے کہ وہ پاکستان کی بقا اور بہبود کے لیئے پاکستانی افواج اور دیگر جمہوری ممالک کی افواج پر آئینی پابندیاں اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرور ت سے قاریئن کو آگاہ کرتے رہیں۔ ہو سکتا ہے آپ کو یہ خواہش طولِ امل لگے، لیکن ایسا کرنا لازم ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں