اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو حسین حقانی کی وطن واپسی کیلئے فوری اقدامات کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے حسین حقانی کیخلاف میموگیٹ کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ ایک شخص جھوٹ بول کر بیرون ملک چلا گیا، کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے، کچھ نہ کچھ فیصلہ تو کرنا ہے، حسین حقانی واپس آنے کا بیان حلفی دیکر گیا ہے، جب تک وہ واپس نہ آیا کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکتا، ملزم کی واپسی کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے جس کی منظوری پارلیمنٹ سے لینا ہوگی۔
سپریم کورٹ نے نیب کو حسین حقانی کیخلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نیب حسین حقانی کی وطن واپسی کیلئے فوری اقدامات کرے، نیب کے پاس ملزمان کی وطن واپسی کا قانونی اختیار بھی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حسین حقانی کی وطن واپسی حکومت کا کام ہے، چاہتے ہیں حسین حقانی کوہر صورت واپس لایا جائے۔
عدالتی معاون احمر بلال صوفی نے بتایا کہ نیب کے پاس قانونی معاونت کیلئے خط و کتابت کا اختیار ہے، نیب امریکا کے محکمہ خارجہ سے براہ راست رابطہ کر سکتا ہے، اقوام متحدہ کے انسداد کرپشن کنونشن سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ حسین حقانی کے خلاف ایف آئی اے نے غلط مقدمہ درج کیا، ایف آئی آر میں حقانی کے جرائم کا واضح ذکر نہیں، ایف آئی آر کو کرپشن تک محدود رکھا گیا ہے، حکومت نے حسین حقانی کی واپسی کے لیے چھ سال ضائع کر دیئے۔
میمو کیس
2011 میں امریکی فورسز نے ایبٹ آباد میں خفیہ آپریشن کرکے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قتل کردیا تھا۔ اس وقت امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی نے امریکی تاجر منصور اعجاز کی وساطت سے امریکی حکام کو مبینہ طور پر ایک خط بھیجا۔
اس مکتوب میں کہا گیا کہ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان میں فوجی بغاوت کا خطرہ ہے اس لئے امریکا پاکستان میں برسر اقتدار جمہوری حکومت کی مدد کرے۔ میمو کے مندرجات سامنے آنے کے بعد نواز شریف سمیت کئی افراد نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ حسین حقانی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تاہم وہ پاکستان سے باہر جانے کے بعد اب تک واپس نہیں آئے۔