تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 703

خواب

اُردو کے معروف شاعر جگر مراد آبادی جب لاہور تشریف لائے تو وہاں کے مقامی شاعروں اور ادیبوں نے ان سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ جگر مراد آبادی نہایت اخلاص اور تپاک سے ہر ایک کا خیر مقدم کررہے تھے۔ ان میں سے سعاد حسین منٹو نے آگے بڑھ کر جگر مراد آبادی سے مصافحہ کرتے ہوئے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ
قبلہ اگر آپ مراد آباد کے جگر ہیں تو
یہ خاکسار لاہور کا گردہ ہے
سعادت حسین منٹو کھل کر بولتے تھے اور لکھتے اس سے زیادہ کھل کے تھے۔ ان کے افسانے میں انہوں نے غلامی اور آزادی کے حوالے سے تحریر کرتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیا کہ تحریک آزادی زور پکڑ رہی تھی، ہر جانب آزادی کے نعرے لگائے جارہے تھے، لاہور کی ایک سڑک پر ایک جلوس آزادی کے نعرے لگاتا ہوا گزرا۔ ایک خاکروب نے جو مسیحی مذہب سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اپنے دوسرے مسیحی بھائی سے جو خاکروب ہی تھا، پوچھا کہ یہ ہندوستانی کس چیز کے لئے جلوس نکال رہے ہیں۔ دوسرے خاکروب نے جواب میں کہا کہ ”یہ ہندوستانی ہم سے آزادی مانگ رہے ہیں“ وہ خاکروب مسیحی ہونے کی بناءپر تاج برطانیہ کا نمائندہ سمجھ کر یہ بیان کررہا تھا کیونکہ تاج برطانیہ کے حکمرانوں کا مذہب بھی عیسائیت تھا۔
منٹو نے اس مسیحی خاکروب کی معصومیت کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا۔ سعادت حسین منٹو موجودہ زمانے میں موجود ہوتے تو وہ حسن نثار کی طرح مسلمانوں کی معصومیت کو بھی بیان کرتے۔ موجودہ زمانے میں پاکستان کے مسلمان بھی اس عیسائی خاکروب کی طرح جو انے مسلمان آباﺅ اجداد پر فخر کرتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
بلکہ موجودہ زمانے کے مفکر مسلمانوں کی اس معصومیت کو طنزیہ انداز میں بیان کرتے ہیں کہ خالد بن ولید عرب تھے اور طارق بن زیاد کا کرد نسل سے تعلق تھا۔ صلاح الدین ایوبی فلسطین کے مسلمان سلطنت اسلامیہ ترکوں نے قائم کی۔ ہندوستان میں جو بھی مسلمان حکمران آئے وہ ترک نسل سے تھے یا مغل تھے۔ کچھ پٹھان حکمران بھی افغانستان سے آئے اور کچھ آذربائیجان سے آئے تھے۔ ان سے ہندوستان کے مسلمانوں کا تعلق ایسے ہی تھا جیسے کہ مسیحی خاکروب کا۔ جب ان حکمرانوں سے اقتدار سلطنت برطانیہ کے اہل کاروں نے چھین لیا تو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں یہ احساسی محرومی پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ ہم سے اقتدار اور اختیار فرنگی نے چھین لیا جب کہ باہر سے آنے والے مسلمان حکمران ہندوستان کے مسلمانوں سے زیادہ ہندوﺅں کو زیادہ قریب رکھتے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز کرتے۔ یہ ہی صورت حال مسلمانوں کے مذہبی اکابرین کی تھی جو زیادہ تر ہندوستان کے باہر سے ائے اور مسلمانوں کی رہنمائی کی۔
ہندوستانی مسلمانوں میں حاجی شریعت اللہ، شاہ ولی اللہ، محدث دہلوی، شاہ اسماعیل شہید تھے جو مسلمانوں کی مذہبی رہنمائی کرتے تھے۔ حیدرآباد دکن سے حیدر علی اور ٹیپو سلطان کے ساتھ تینو میر تھے یا 1859ءکی جنگ آزادی کے موقع پر جنرل بخت خان کا نام آتا ہے۔ جنگ آزادی کے بعد جب کہ مرزا غالب جیسا جینئس انگریز کے ہاتھوں میں ماچس دیکھ کر حیران رہ گیا کہ کیسی قوم ہے جو جیب میں آگ لے کر پھرتی ہے یعنی ماچس کو دیکھ کر غالب حیران و پریشان ہوا تو اس وقت امریکا میں علم و ہنر کا یہ عالم تھا کہ موجودہ دور کی تمام بہترین یونیورسٹیاں جن کا شمار آج کی پچاس بہترین درسگاہوں میں ہوتا ہے وہ اس زمانے میں قائم ہو چکی تھیں جب مسلمان 1857ءکی جنگ آزادی لڑ رہے تھے اور برصغیر کا جینئس غالب ماچس دیکھ کر حیران ہو رہا تھا اور ہندوستان کی مسلمان عورتیں فرنگی کو بدعا دے رہیں تھیں کہ انگریز کی توپوں میں کیڑے پڑیں۔
جب ہندوستان ی بزرگ خواتین انگریزوں کی توپوں یں کیڑے پڑنے کی دعائیں کر رہی تھیں اس زمانے میں مغرب اس تہذیب ترقی کا آغاز ہو چکا تھا جس کی بدولت وہ آج کی دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ تحقیق و تخلیق کی نئی نئی راہیں بنانے جارہی تھیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں جدید ذرائع اختیار کئے جارہے تھے اور مسلمان خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ دوسری طرف جمال الدین افغانی کا خواب تھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسپابنی کے لئے
نیل کے ساحل سے تاب خاک کاشغر
جب کہ جمال الدین افغانی کے خواب کی تعبیر یہ ہو رہی ہے کہ موجودہ زمانے میں نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک مسلمانوں کی گردنیں مسلمان ہی کاٹ رہے ہیں۔ علامہ اقبال اپنی شاعری سے مسلمانوں کو شہباز سے مقابلہ کی تلقین کرتے رہے ہیں، مسلمان ہیں کہ اقبال ہی کا ممولہ بن کر رہ گئے ہیں، ہر کوئی مسلمانوں کے درپہ آزار ہے، علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ
چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا
جب کہ حالات یہ ہیں کہ رہنے کو گھر نہیں ہے، کہنے کو جہاں ہمارا مسلمان اپنے گھروں میں رہنے کے قابل نہیں رہے تو دنیا کے دوسرے ملکوں میں جا کر بسنے کی خواہش مند ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے یا بنگال کے ان کا کوئی ہمدرد نہیں۔ ان کو پتھروں کے زمانے میں پہنچانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں کہ جہاں سے ابتداءہوتی۔
اب تک دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں کسی اسلامی ملک کی کسی درسگاہ کا کوئی شمار نہیں، کچھ مسلمان ملک جن کے پاس وسائل ہیں وہ اپنے اپنے بڑے بڑے محلات بنانے میں لگے ہوئے ہیں یا ان کی دولت ہتھیار جمع کرنے میں صرف ہو رہی ہے جب کہ یہ ہتھیار اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف استعمال کرنے کے درپے ہیں اور جن کے پاس تھوڑا بہت علم ہے ان کو نقل مکانی پر مجبور کرکے ترقی یافتہ ملکوں پناہ گزین بنایا جارہا ہے۔ مسلمان ہیں کہ ماضی کے خوابوں میں گم ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان پاکستان کے مسلمان اپنے حال کو فراموش کرکے ماضی نشاط ثانیہ کی منتظر ہے۔ اپنے عہد کے ساتھ جینے کو تیار نہیں جب کہ تعلیمات یہ ہیں کہ مسلمان اپنے عہد سے ہم آہنگ ہو۔ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے جدید ذرائع تحقیق اور تخلیق کو اختیار کریں۔ جس اسلام کے قلعہ کی تعمیر کیا اس کی فصیلیں ہی ختم کر دیں۔ اس بوسیدگی کے باوجود دنیا کو فتح کرنے کی خواہش مند اپنی ذات کو قابل فخر سمجھتے ہیں جیسے زمانے کی رفتار ان ہی کے دم سے ہے، کوئی مراد آباد کا جگر ہے، کوئی لاہور کا گردہ، کوئی بٹ ہونے پر فخر کررہا ہے، کوئی آرائیں، کوئی پنجابی ہے یا پٹھان، سندھی یا مہاجر، خواب ہیں کہ دنیا کو فتح کرنے کے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں