Jamal Siddiqui Columnist at Pakistan Times Chicago and Toronto 826

دھوکہ ہے سب دھوکہ

اس شخص کی آنکھوں میں عجیب سی بے بسی، اداسی، اور ایسے دکھ کا احساس تھا جسے میرا ذہن سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔ اپنی بے چین اور پُر تجسس فطرت سے مجبور ہو کر میں نے اس اداسی کا سبب جاننے کا فیصلہ کرلای۔ میرے اسفسار پر اس نے کہا ایک چھوٹی سی کہانی ہے اگر مناسب سمجھو تو سناﺅں۔ ضرور، میں سننا چاہوں گا۔ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ ٹھیک ہے تو میں اس دن سے شروع کرتا ہوں جب ہم نے ہجرت کا سفر شروع کیا۔ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ اور پھر وہ کہیں ماضی میں کھو گیا۔ کچھ دیر بعد اس کے لب ہلے اور اس نے کہنا شروع کیا۔ یہ 2004ءکی بات ہے کہ ایک دن اچانک نہ جانے کیوں پورے ستاون سال کے بعد مجھے بچپن کا وہ سفر شدت سے یاد آیا جو ہم نے پاکستان بننے کے بعد اپنے آزاد ملک کی جانب کیا تھا۔ ہندوستان سے ہم ٹرین میں بیٹھ کر آخری گاﺅں تک آگئے تھے اس کے آگے جنگل، جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے اس گاﺅں پہنچے جو اب پاکستان کی حدود میں تھا اور اس کا نام نصیر کوٹ تھا۔ نصیر کوٹ سے ہم اونٹوں کے ذریعے چمن پور پہنچے، چمن پور میں ٹرین اسٹیشن تھا وہاں سے ہم لاہور چلے گئے لہذا میں اسی طرح آج لاہور سے ٹرین میں چمن پور پہنچا اور اب یہاں سے نصیر آباد کے لئے بس کے انتظار میں کھڑا تھا۔ برسوں بعد آج اسی راستے پر جاتے ہوئے ایک عجیب سا احساس ہورہا تھا لیکن میں کیوں اس راستے پر جارہا تھا یہ صرف میرا اشتیاق تھا یا کچھ اور، مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا۔ چھ سال کی عمر میں، میں اس راستے سے حالات کی وجہ سے گزرا تھا۔ جسے ہم نے وقتی تکلیف کا نام دیا اور ہمارے والدین نے ہمیں آگے کے لئے ایک اُمید دلائی تھی اور اسی اُمید اور یقین کے جذبے کے تمام تکالیف کو آسان کردیا تھا۔ میں نے سر کو جھٹکا اور کچی سڑک پر نظریں گاڑ دیں۔ جہاں سے بس کو نمودار ہونا تھا۔ اور مجھے نصیر کوٹ لے جانا تھا۔ واضح رہے کہ یہاں چمن پور ہم اونٹو میں نصیر کوٹ سے پہنچے تھے۔ ایک مرتبہ پھر میں ماضی میں کھو گیا۔ چھ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے، کھیل کود، نہ ملکی حالات کی فکر، نہ سیاست کی خبر لیکن کچھ ہو رہا تھا، کوئی ہنگامہ تھا، لوگوں کا آنا جانا، بحث و مباحثہ زوروں پر تھا پھر ایک دن ابا جی نے یہ خبر سنا دی کہ ہمیں یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور جانا ہے، ہمیں اپنی زمین، گھر بار، کاروبار چھوڑ کر کسی اور طرف روانہ ہونا ہے لیکن کہاں؟ ہمارے چہروں پر سوالیہ نشان پڑھ کر ابا جی نے کہا، ہماری کوششیں، ہماری جدوجہد اور انگریزوں کے خلاف دی جانے والی قربانیاں رنگ لائی ہیں اور ہمیں وہاں جانا ہے جسے ہم نے ”پاکستان“ کا نام دیا ہے۔ ہمیں اپنے ملک جانا ہے۔ میرا ننھا سا ذہن یہ سب سمجھنے سے قاصر تھا، لہذا میں نے پریشانی سے چلا کر کہا لیکن ہم تو اپنے ہی ملک میں ہیں۔ ابا جی نے بہت نرم لہجے میں جواب دیا، نہیں بیٹا، اب یہ ہمارا ملک نہیں ہے۔ ہمیں اپنے نئے ملک میں جانا ہے، جہاں ہم آزادی سے رہ سکیں گے لیکن یہاں تو ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہے، ہم آزادی سے تو رہ رہے ہیں، میں نے حیرانی سے جواب دیا۔ ہاں بیٹا، ابھی تک تو ہم آزادی سے رہ رہے ہیں لیکن آگے چل کر ہم اتنی آزادی سے نہ رہ سکیں گے، ابا جی نے اتنا کہہ کر بات ختم کردی، لیکن میری سمجھ میں کچھ نہ آیا اور پھر وہ دن آگیا جب ہم اپنا گھر بار، اپنی زمین، محلہ اور رشتہ دار چھوڑ کر ایک نئے سفر، ایک انجانی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ اپنے باپ کے چہرے پر میں تفکر، گھبراہٹ اور بے چینی صاف طور پر دیکھ سکتا تھا۔ میرا دل ڈوبا جارہا تھا، یہ سب کیا ہوگیا لیکن ننھا ذہن کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا، اماں کے پاس کچھ زیورات تھے، جو انہوں نے پوٹلی میں باندھ لئے تھے۔ چلے تو ہم کارواں کی صورت میں لیکن لٹیروں کی لوٹ مار کی وجہ سے یہ کارواں بکھر گیا اور جس کا جدھر منہ اُٹھا، نکل گیا۔ اچانک گھنٹیوں کی آواز سے میری سوچ کا تانا بانا ٹوٹ گیا۔ بس ابھی تک نہیں آئی تھی اور یہ گھنٹیوں کی آواز قریب آتی جارہی تھی۔ یہ گھنٹیوں کی آوازیں مجھے کچھ مانوس سی محسوس ہو رہی تھیں اور مجھے یاد گیا یہ آوازیں اونٹ کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی تھیں۔ وہ اونٹ جس پر بیٹھ کر ہم لوگ نصیر کوٹ سے یہاں چمن پور پہنچے تھے۔ وہ 1947ءکی بات تھی اور یہ 2004ءہے، گھنٹیوں کی آوازیں بالکل اسی طرح تھیں۔ کوئی فرق محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے گردن گھما کر دور سے آتے ہوئے اونٹ کی طرف دیکھا جس پر ساربان براجمان تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور اونٹ کے قریب آتے ہی میں نے اونٹ والے کو روک لیا۔ کیا تم مجھے اونٹ پر نصیر کوٹ لے جا سکتے ہو۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا، بابو جی نصیر کوٹ بہت دور ہے تم اونٹ پر کیوں جانا چاہتے ہیں۔ آرام سے بس میں بیٹھ کر کیوں نہیں جاتے۔ بھائی تم سوال مت کرو، یہ بتاﺅ تم کتنے پیسے لو گے؟ اس نے کچھ لمحے سوچا اور پھر بولا یوں تو میں نصیر کوٹ ہی جارہا ہوں کیونکہ میں وہیں رہتا ہوں لیکن آپ سوچ لو یہ کئی گھنٹے کا تھکا دینے والا سفر ہے۔ میں نے اس کا جواب دینے کے بجائے اس کے ہاتھ پر پانچ سو روپے رکھ دیئے۔ اس نے میری طرف ایسے دیکھا جیسے اسے میری ذہنی حالت پر شک ہو۔ جی بابو جی جیسی آپ کی مرضی، اس نے جلدی سے نوٹ اپنے کھیسے میں اُڑس لئے اور ہم اونٹ کے گلے میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی مدھر تانوں کے ساتھ نصیر کوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ میرے ذہن میں اس اونٹ والے کا دھندلا سا خاکہ بار بار یہ احساس دلا رہا تھا کہ شاید میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ اچانک اس کی آواز آئی، راستے میں بھوک لگے تو بتا دینا صاحب، کسی ہوٹل میں کھانا کھالیں گے اور میرے ذہن میں کوندا سا لپکا، الفاظ بھی وہی تھے، میں نے ذہن پر زور دیا اور مجھے یاد آگیا، یہ اونٹ والا تو وہی تھا جس کے اونٹ پر 1947ءمیں، میں میرے والدین اور بہن نصیر کوٹ سے یہاں آئے تھے لیکن پھر اپنے ہی خیال پر مجھے ہنسی آگئی۔ بھلا 57 سال میں یہ اونٹ والا کیسے ویسا ہی رہے گا۔ میں اس وقت چھ سال کا تھا اور اونٹ والا اچھی خاصی عمر کا تھا۔ مجھے ہنستے دیکھ کر اونٹ والا بولا، کیا ہوا بابوجی؟ کچھ نہیں، یہ بتاﺅ تمہارے اباجی کیا کام کرتے تھے؟ میرا سوال ہنس کر وہ زور سے ہنسا! بڑا عجیب سا سوال ہے۔ اصل میں آپ شہر کے لوگ ہو اور آپ لوگوں کے ذہن میں اسی طرح کے عجیب سوال آتے ہیں۔ بابوجی ان علاقوں کے رہنے والے وہی کام کرتے ہیں جو ان کے آباﺅ اجداد کی اکرتے تھے۔ مزدور کا بیٹا زمیندار نہیں ہو سکتا، تحصیلدار نہیں ہوسکتا، انسان تو انسان جانوروں کا بھی یہاں یہی حال ہے۔ یہ جو میرا اونٹ ہے اس کا باپ میرے باپ کے لئے کام کرتا تھا اور مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا۔ میں نے ہاں میں گردن ہلائی اور آنکھیں موندلیں۔ اونٹ کے ہچکولوں سے نیند آنے لگی تھی اور میں تھوڑی ہی دیر میں نیند کی گہری وادیوں میں کھو گیا۔ آنکھ کھلی تو ہم نصیر کوٹ میں داخل ہوچکے تھے۔ سب کچھ وہی تھا، کچھ بھی تو نہیں بدلا، کچھ فاصلے پر حمام نظر آیا، بالکل اسی طرح اسی جگہ جہاں اور جیسا 57 سال پہلے تھا۔ حمام کی چھت پر بھگونے کا پیندا کاٹ کر اسے چمنی بنا کر لگایا ہوا تھا۔ جس سے گرم پانی کی بھاپ اور دھواں لکیریں بناتا ہوا انجانی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ 57 سال میں صرف اتنا فرق آیا تھا کہ گرد اور دھواں جمتے رہنے سے بھگونا کچھ زیادہ ہی سیاہ اور موٹا ہو گیا تھا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ کبھی اس کی صفائی کی گئی اور نہ ہی دیکھ بھال پر کوئی توجہ دی گئی ہو، بالکل ہمارے ملک کی طرح کہ آزاد تو کرالیا لیکن نہ صفائی ہوئی نہ دیکھ بھال اور نہ ہی تعمیر و ترقی اور جسے ہم ترقی کہتے ہیں وہ سراسر دھوکہ ہے، سراب ہے، ہم اس جھگونے کی طرح آج تک وہیں کھڑے ہیں۔ گائے کے ڈکرانے کی آواز سے میں چونک گیا۔ گائے بیل بھی اسی طرح سے اُسی مقام پر بندھے ہوئے ہیں جہاں میں بچپن میں دیکھ کر گیا تھا۔ اسی طرح بکریاں چارہ کھا رہی ہیں اور مرغیاں دوڑ لگا رہی ہیں۔ ایک چارپائی پر چادریں اوڑھے سفید پگڑیوں میں کچھ بوڑھے افراد حقے کے کش لگا رہے ہیں اور خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔
مجھے یاد آیا جب اسی طرح چارپائی پر بیٹھے ایک بزرگ نے پوچھا تھا، تم لوگ کہاں سے آئے ہو اور کہاں جارہے ہو اور میرے والد صاحب نے حیرت سے پوچھا تھا۔ ارے کیا تم لوگوں کو نہیں معلوم کہ پاکستان بن گیا اور تم لوگ اس وقت پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہو۔ وہ بہت زور سے ہنسا تھا اور کہنے لگا بابوجی ہمیں نہیں معلوم کہ پاکستان کیوں بنا اور کس نے بنایا اور پھر ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا ہندوستان اور کیا پاکستان۔ ہم تو ان بیلوں کی مانند ہیں چاہے جہاں باندھ دو، ہم نے اور ہماری نسلوں نے اسی طرح سے یہاں پر اسی انداز میں رہنا ہے اور اپنے آقاﺅں کے جوتے کھانے ہیں۔ آپ جاﺅ مزے کرو، کچھ دنوں میں پتہ چل جائے گا کیونکہ ہم جتنا جانتے ہیں شاید تم نہیں جانتے۔ سب دھوکہ ہے دھوکہ اور اباجی نے ہمارے ہاتھ پکڑ کر کہاو، چلو یہاں سے یہ لوگ پاگل معلوم ہوتے ہیں اور آج میں سوچتا ہوں کہ پاگل وہ نہیں ہم تھے جو بغیر کچھ سوچے سمجھے دوڑ پڑے۔ وہ پاگل نہیں تھے، وقت نے ثابت کردیا کہ وہ سچے تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں