کسی سے بات کیجئے! 312

دیارِ غیر کی صعوبتیں

لکھنا میرے لئے ایک لگڑری ہوا کرتا تھا اور چند سال پہلے میں باقاعدہ کالم لکھا کرتی تھی اور بہت ریسرچ کر کے لکھتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب ذمہ داریاں بڑھتی چلی گئیں تو لکھنے والی لگڑری انجوائے کرنے کا ٹائم ختم ہونے لگا۔ افسانے ، کالم ، کہانیاں سب آہستہ آہستہ پیچھے ہوتے گئے۔ ہفتے میں ایک دن تک نئیں بچتا یا ایک دن کے چند گھنٹے بھی۔۔
پاکستانی لڑکیوں کو جب کسی بھی بیرونِ ملک لڑکے کا رشتہ آتاہے تو ہر طرف رشک، حسد، فخر اور اس سے ملتے جلتے تاثرات کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ چاہے لڑکی خود کتنی ہی پڑھی لکھی کیوں نہ ہو اسے بھی یہی لگتاہے جیسا کہ فلموں میں دکھایا جاتا ہے باہر کی زندگی پاکستان کی زندگی کی نسبت آسان ہوگی۔ کم از کم یہاں پہ ہر چیز پہ ہونے والی ذلالت سے سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پھر حقوق کی پاسداری ہوگی اور ہر چیز میں آسانیان ہی آسانیاں ہوں گی۔ دوست ، رشتے داروں کو لگتا ہے بس پیسہ ہی پیسہ ہوگا، تالی بجا کے ہرکام ہوجایاکرے گا۔ اور بیچاری لڑکیاں آنکھوں میں برفزاروں کے خواب سجائے خود کو کسی رومانوی فلم کا حسین ترین کردار سمجھتی ہوئی ، برف جیسے بندھن نبھانے پہنچ جاتی ہیں
یہاں کی ٹھنڈ سانسوں کے ساتھ جسم میں اترتی ہے تو دل میں اپنوں کی کمی کا جان لیوا خلا پیدا ہونے لگتا ہے۔ دکھ سکھ کہنے کیلئے اجنبی دیس کے اجنبی لوگ ملتے ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی، سکھیاں اور ساری رونقیں تیاگ کے آنے والیوں کا پالا بھانت بھانت کی عورتوں سے پڑنے لگتا ہے جو کبھی کم پڑھی لکھی ، تو کبھی عجیب و غریب عادات کی مالک نفسیاتی مسائل سے گھری ہوتی ہیں نتیجہ بلا وجہ کی بدمزگیاں ، کبھی کبھی تو اچھی خاصی ناچاتیاں۔
ان کی پوری دنیا ایک شوہر کے گرد گھومتی جس کیلئے سب چھوڑ چھاڑ یہاں بھیجا جاتا ہے۔ شوہروں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان بیچاریوں کا یہاں کوئی نہیں ہے سو ان کے بھی جو دل میں آتا ہے وہ کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ بیچاری صبح سے آدھی رات تک سگھڑاپے کے جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ کہیں جاب۔ بزنس یا اس قسم کی دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہیں۔ ان کے پاس ہیلپ نام کی کوئی چیز نہیں ، نہ کام والی، نہ میڈ ، نہ کوئی گھریلو مدد۔ بس اپنی مدد آپ کے بعد اللہ کی مدد !!
نہ صرف گھر کے تمام کام، بلکہ باہرکے بھی کام، بچے بھی اکیلے پیدا کرلئے جاتے ہیں ، نہ پریگنینسی میں کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے نہ بچے کی پیدائش کے وقت سوائے چند اچھی ہمسائیوں اور دوستوں کے۔ سو آرام کرنے کے ان دنوں میں بھی دن رات اکیلے گھر، اپنا آپ اور نئے بچے کے ساتھ ساتھ پہلے والے بچوں کو سنبھالتے سنبھالتے یہ وقت سے پہلے بوڑھی ہونے لگتی ہیں۔ کہ نہ کوئی خوشی میں ساتھ ، نہ غم میں شریک۔ عورت کی زندگی کا سب سے مشکل دور بھی یہ اکیلے اپنے سر گزار لیتی ہیں۔
اور سب سے زیادہ مزہ تو اس وقت آتا ہے جب پاکستان میں لوگ پوچھتے ہیں تم سارا دن کرتی کیا ہو ادھر؟؟؟ ڈوب کے مر جانے کو جی چاہتاہے۔ ویسے یہ ڈوب کے مرجانے کا مشورہ میں اکثر باتوں پہ اپنی دوستوں کو دیتی ہوں جہاں کہیں بھی دکھ سے مرنے کا مقام ہو!! سسرال، رشتے داروں، دوستوں میں رشک کی نگاہ سے دیکھی جانے والی یہ بیگمات سوئی کی گھڑیوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ان کی زندگی میں صرف ایک ہی لگڑری ہے وہ ہے تنہائی۔۔۔
جو اس سے سمجھوتا یا دوستی کرلے اس کیلئے دیارِ غیر جائے سکون ہے اور جو نہ کرپائے وہ نہ یہاں کی رہتی ہیں نہ وہاں کی۔
یہاں کی زندگی میں صرف کام ہے سوتے ہوئے بھی ڈھیر کاموں کی فہرست ترتیب دیناہوتی ہے جو اگلے دن کرنے ہوتے ہیں۔ یہاں کی زندگی بہت سخت ہے۔ بہت مسائل ہیں اور یہ سب اکیلی رہ کے زندگی کے جوروستم سہنے والی یہ خود کو بھلائی ہوئی مخلوق قابل تحسین ہیں اور سراسر محبت کئے جانے کے قابل ہیں۔ ان سب کی ہمت قابلِ فخر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں