جیسی رعایا ویسے حکمران 271

ریاستی جبر شدت پسندی کو جنم دے گا

لاہور میںریاستی جبر اور تشدد کی سنگین صورتحال پر ملک بھر میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے ۔ ایک طرف تو سرحد پار کسی جارحیت سے نبٹنا ہو تو جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں، ہم مذاکرات کریں گے کا بیانیہ۔ اور دوسری طرف اپنے نہتے شہریوں سے مذاکرات کی بجائے سخت آپریشن، ریاستی جبر کی افسوسناک صورتحال ملک میں امن و امان نہیںبلکہ شدت پسندی و انتشار کو جنم دے سکتی ہے۔ دنیا میں ریاستیں دو چہرہ نہیں ہوتیں، ان کے قانون، قاعدے اور اصول سب کے لئے برابر اور منصفانہ ہوتے ہیں جبکہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اپنا دوست ہو یا اپنا فائدہ ہو تو ترازو کو اس کے حق میں جھکا دو اور اگر اپنا نقصان ہو رہا ہو یا کوئی سیاسی یا مذہبی حریف ہو تو پھر ترازو اپنی طرف جھکا کر اس کو برباد کر دو، یہ دونوں رویے غلط ہیں۔ ریاستی پالیسی کبھی ادھر اور کبھی ادھر، اس وجہ سے قانون اور قاعدے کا احترام باقی نہیں رہتا۔ پاکستان کا حکمران طبقہ مغرب سے اس قدر خوفزدہ اور مرعوب ہے کہ اس کی جانب سے ہمارے پیارے نبی سرکار دو جہاں محمد صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر بھی ان حکمرانوں کی آواز تک نہیں نکلتی۔ جب عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو یہ معاہدے کرتے ہیں مطالبات تسلیم کرتے ہیں اور کسی طرح عوام کو گھر بھیجتے ہیں لیکن جوں ہی لوگ ٹھنڈے ہوتے ہیں حکمران مغرب کی چاپلوسی میں لگ جاتے ہیں۔
وزیر اعظم کی جانب سے توہین رسالت پر پاکستانی مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے توہین رسالت کو ہولوکاسٹ سے ملانا قطعاً مناسب نہیں ۔ ہولوکاسٹ سراسر گھڑا ہوا فلسفہ ہے رائی کا پہاڑ ہے ، پروپیگنڈا ہے جھوٹ کا ملمع اور طوفان ہے، اسے نبی آخر الزماں کی شان کے مقابلے میں لانا بھی کم علمی کی نشانی ہے ۔ وزیراعظم صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ شان رسالت میں گستاخی کرنے والے افراد کی سرکاری سرپرستی صرف فرانس نے کی ہے انہیں فرانس کا نام لینا چاہیے تھا۔ فرانسیسی سفیر کو ملک سے نکال دینا چاہیے تھا جس کا ان کی حکومت نے تحریری معاہدہ بھی کیا تھا۔ جبکہ نبی کی شان کسی معاہدے کی محتاج نہیں ہے، اللہ کا حکم ہے کہ اپنے ماں باپ اور اپنی اولاد کی جان سے زیادہ ہمیں اپنے رسول کی ذات سے محبت ہونی چاہیے ۔ خان صاحب تھوڑی جرا¿ت کریں مغرب کے نام میں پناہ تلاش کرنے کے بجائے براہ راست فرانسیسی حکمرانوں کا نام لیں ان کے سفیر کو گھر بھیجیں اور امت کی درست ترجمانی کریں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور کی جانب سے یہ بیان کہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کا مطلب یورپ کو اپنے خلاف کرنا ہے ، سفیر کی بے دخلی سے کچھ نہیں ہوگا یورپی یونین نے پابندی لگادی تو برآمدات آدھی رہ جائیں گی، انتہائی شرمناک ہے۔ وزیر صاحب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کس ہستی کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں، کس حقیر چیز سے اعلیٰ ترین ذات کی ناموس کا سودا کررہے ہیں ۔ ذرا بتایا جائے کہ سفیر کو نہ نکالنے سے کتنی برآمدات بڑھ گئیں، امت مسلمہ ایسی برآمدات پر سو بار لعنت بھیجتی ہے جو نبی کی شان میں گستاخی برداشت کرکے حاصل ہو۔
امت مسلمہ آج جن مسائل سے نبرد آزما ہے ان سب کا سبب بھی یہی ہے کہ ہمارے حکمراں ہر میدان میں اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت پر اترے ہوئے ہیں۔ سود کو اللہ نے حرام کیا اور اس پر اصرار کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ حکمراں مسلسل سود کے معاملے میں اللہ اور رسول سے جنگ میں مصروف ہیں۔ نتیجہ دیکھ لیں، ملک کی معیشت کا بیڑا غرق ہوچکا ہے ، چینی، گندم اور آٹے کا بحران ہے ۔ مہنگائی ہے بیروزگاری ہے تجارت ختم ہے دنیا میں کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ایف اے ٹی ایف کے نام پر محاصرہ کیا جارہا ہے ۔ ہر آنے والے دن قرضے بڑھ رہے ہیں ہر قرضے کے ساتھ قرض دینے والوں کی شرائط میں اضافہ ہورہا ہے ۔ کون سا شعبہ ہے جو ترقی کررہا ہے سوائے باتوں کے ، ہمارے وزیراعظم ریاست مدینہ اور گھبرانا نہیں کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ لاہور میں پیدا شدہ صورتحال لال مسجد کے واقعہ سے مماثلت رکھتی ہے ، حکومت نے غیر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ان حالات میں حکومت کو ریاستی جبر کا راستہ ترک کرکے اس حساس معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہیے ، اور فرانسیسی سفیر کو فوری طور پر ملک بدر کرکے ملک کو امن کا گہوارہ بنانا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں