جیسی رعایا ویسے حکمران 278

حسد! خوشیوں کا دُشمن

آج کے معاشرے میں حسد، کدورت اور عداوت عام ہو چکی۔ بلاشبہ یہ وہ منفی جذبے ہیں جنھیں مہمیز دے کر شیطان، معاملہ جدال و قتال تک پہنچا دیتا ہے۔ حسد کی مختلف شکلیں ہیں مثلاً کسی کی خوشحالی سے حسد، کسی کے اچھے کاروبار سے حسد ، کسی کی محنت کی بدولت کاروبار میںترقی سے حسد، تعلیم یا ملازمت میں ترقی سے حسد، کسی کی اچھی شکل و صورت یا شخصیت سے حسد ، کسی کی اچھی اولا د سے حسد، کسی کی شہرت، عزت، قابلیت یا عہدے سے حسد، کسی کے مکان، جائداد اور دیگر سا مان تعیش سے حسد، کسی کی صحت سے حسد، کسی کے اچھے کپڑوںیا زیورات سے حسد۔ درحقیقت حاسد انسان اپنی خوشیوں کا از خود دشمن ہوتا ہے، وہ دوسروں کی ترقی و کامیابی سے ناخوش ہوتے ہوئے نہ صرف اپنی صلاحیتوں میں کمی کرلیتا ہے بلکہ یہ نفسیاتی اذیت دنیا و آخرت میں خسارے کا باعث بنتی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے حسد کرنے والا ابلیس ہے جوکہ حاسدین کا قائد ہے، اسی وجہ سے قرآن کریم میں حسد کرنے والے کے شر سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید کی سورة الفلق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ” (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم ) ا?پ کہیے میں صبح کے ربّ کی پناہ میں آتا ہوں ہر اس چیز کی برائی سے جو اس نے پیدا کی ہے، اور اندھیری رات کی برائی سے جب کہ اس کا اندھیرا پھیل جائے، اور گرہ لگا کر ان میں پھونکنے والیوں کی برائی سے، اور حسد کرنے والے کی برائی سے کہ جب وہ حسد کرے“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث مبارکہ میں حسد کی مذموم بیماری و عادت سے بچنے کی وصیت فرمائی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”حسد نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے، اور صدقہ گناہ کو ایسے مٹادیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھادیتا ہے“ ( ابن ماجہ)۔
ایک اور حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” تم گمان سے بچو ، اس لیے کہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے، تم آپس میں حسد نہ کیا کرو، جاسوسی نہ کیا کرو، بغض نہ رکھا کرو، بے رخی نہ برتا کرو، دام بڑھانے کے لئے بولی نہ لگایا کرو، بلکہ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو“ ( متفق علیہ)۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے ”آپس میں حسد نہ کرو اور قطع تعلقی نہ کروایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو اور اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بنے رہو“ (صحیح مسلم)۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں گزشتہ اقوام کی بیماریاں در آئیں گی، جن میں سے حسد اور بغض بھی ہے اور یہ مونڈھ دینے والی ہوں گی، یہ بال نہیںبلکہ دین کا صفایا کردینے والی ہیں “ ( ترمذی )۔ حضرت عبداللہ بن بسررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”حسد کرنے والا، چغل خور اور کاہن میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتا ،اور نہ میرا اس کے ساتھ تعلق ہے، پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورة الاحزاب کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی (ترجمہ)”وہ لوگ جو اذیت پہنچاتے ہیںایماندار مردوںاور ایماندار عورتوں کو حالانکہ انہوں نے ایساکوئی(برا)کام نہیں کیا توان(اذیت پہنچانے والے)لوگوںنے اپنے سروں پربہتان باندھنے اور کھلے گناہ کا بوجھ اٹھا لیا“۔ حضرت عبداللہ بن کعب اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دو بھوکے بھیڑئیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے گئے ہوں وہ بکریوں کا اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال کی حرص اور حسد مسلمان کے دین کا نقصان کرتے ہیں“۔
درحقیقت حسد ایک عذاب ہے جو دنیا اور دین دونوں میں نقصان دہ ہے، کیونکہ حسد اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی تقسیم کے بارے میں اظہار ناراضگی ہے اور جو چیزیں ربّ ذوالجلال نے اپنے بندے کو عنایت کی ہیں حاسد درحقیقت ان سے انکار کرتا ہے اور اس جلن میںابلیس کا شریک کاربن جاتا ہے، وہ لوگوں کی تباہی اور بربادی چاہتا ہے، اپنی بھلائی کے لیے کوشش نہیں کرتا، کیوںکہ رات دن دوسروں کی بربادی کے غور و فکر کی وجہ سے اتنا موقع ہی نہیں ملتا کہ اپنی ترقی کے لیے سوچ بچار کرسکے۔ اس طرح وہ سست اور کاہل ہوجاتا ہے اور یہ سستی اس کو اللہ کی نعمتوں سے محروم کردیتی ہے۔ ہمیں مادی چیزیں جو انسان کو حسد پر مجبور کرتی ہیں انہیں قطعی عارضی اور کمتر سمجھتے ہوئے جنت کی نعمتوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ گناہوں سے استغفار کرتے ہوئے، محسود(جس سے حسد ہے) کے لئے دعا کر نا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ان تما م امور میں مذید کامیابیاں دے، تاکہ ہمارا دل حسد ، کینہ و بغض سے صاف ہو، اس طرح رحمت الٰہی مہربان ہوگی اور وہ نعمتیں ہمیں میسر آ ئیں گی جن کی ہم تمنا رکھتے ہیں، بے شک ربّ رحمن کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں