جیسے بیٹن کہلانے والی خاکی چھڑی کسی عہدے اور زمہ داریوں کی علامت ہے، اسی طرح سفید چھڑی نابینا افراد کی بے بسی و محتاجی کی علامت ہے، تاکہ اسے دیکھنے والے افراد ان کی ہر ممکن مدد کریں۔ سفید چھڑی کے حامل نابینا افراد کو راستہ بتائیں، ان کو پہلے گزرنے دیں۔ سفید چھڑی کا عالمی دن منانے کا مقصد نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات سے متعلق معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا ہے ، اور یہ باورکرانا ہے کہ معذور افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ مفید شہری ثابت ہوسکتے ہیں۔سفید چھڑی تو نابینا افراد کو چلنے پھرنے میں تحفظ فراہم کرتی ہے تاہم سفر زیست کے لیے تعلیم، روزگار، صحت اور آبادی میں اضافہ توجہ طلب مسائل ہیں۔ پاکستان بھر کی بلائینڈ ایسوسی ایشنز بھی اس دن کو پرجوش انداز سے منانے کے لئے مختلف شہروں میں رنگا رنگ پروگرام منعقد کرتی ہیں جن کا مقصد نابینا افراد کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مکاتب فکر تک نابینا افراد کے مسائل سے آگاہ کرنا اور نابینا افراد میں موجود قابلیت کو اجاگر کرنا ہے تاکہ نابینا افراد کے مسائل حل ہوسکیں ، ان کو آسانیاں میسر آئیں اور وہ ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار با حسن و خوبی ادا کرسکیں۔اسی وجہ سے دنیا بھر کے نابینا افراد کو ماہ اکتوبر کے اس دن کا شدت سے انتظا ر رہتا ہے ، جبکہ اس دن منعقد ہونے والے پروگرام نابینا افراد کے لئے انتہائی مسرت کا باعث ہوتے ہیں۔ پندرہ اکتوبر 1999ءتک یہ دن بھر پورانداز سے منا یا جاتا رہا ، اورسرکاری اور نجی سطح پر منانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے لیکن پھر دنیا کے سرمایہ دار اداروں نے اس دن پر شب خون مارا اور اس دن کو گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے یعنی ہاتھ دھونے کا دن مقرر کروادیا جس کا مقصد شعور کی بیداری کے نام پر اپنی مصنوعات کی تشہیر اور خود کو سماجی حیثیت میں سامنے لانا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوم سفید چھڑی پر میڈیا گلوبل ہینڈ واشنگ ڈے کے اشتہارات کی چکاچوند میں ایسا غرق ہوا کہ نابینا لوگوں کو اپنے دن پر صرف ڈھائی منٹ کوریج کی خیرات ملتی ہے۔ان حالات میں میڈیا کواپنی قومی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے نہ صرف نابینا لوگوں کے مسائل اجاگر کرنا چاہئے بلکہ نابینا افراد کی کارکردگی بھی سامنے لانا چاہیے۔
اس وقت دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ ہے ، ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ءمیں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 11کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت جنوبی ایشیا ءمیں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جب کہ مشرقی ایشیاءمیں یہ تعداد 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیائ کی تیس لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے۔ جبکہ پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں یہاں اندھے پن کی شرح 1.08 ہے، جبکہ پاکستان میں جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریباًساٹھ لاکھ کے قریب ہے، پاکستان کی سترہ فیصد آبادی ذیابیطس کی شکار ہے جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے جس سے آنکھ کے عدسے کے متاثر ہونے یعنی آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں نابینا افراد کو کار آمد بنانے کے ادارے ناپید ہیں اور ان خصوصی افراد کو کسی قسم کی سہولت یا آسانی بھی میسر نہیں ، ان افراد کو روز مرہ کے کاموں کی انجام دہی میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تا ہم کچھ نجی ادارے اس کارخیر میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ بصارت کی خرابی بعض صورتوں میں اس نوعیت کی ہوتی ہے کہ ایسے افراد سڑک کے پار کھڑے ہوئے شخص کو شناخت نہیں کر سکتے اور وہ قانونی طور پر ڈرائیونگ کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ نظر کی بیماریوں اور اس کے علاج معالجے پر سرمایہ کاری کریں کیونکہ اس سے نہ صرف متاثرہ افراد کی زندگیوں میں بہتری آئے گی بلکہ وہ کام کاج کر کے معیشت کو بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈال سکیں گے۔ قدرت جب کسی سے ایک نعمت لیتی ہے تو دوسری کئی صلاحیتوں کو بیدار کردیتی ہے، بظاہر بصارت سے محروم نظر آنے والے لوگ چشم بصیرت رکھتے ہیں ان کے دل کی آنکھیں روشن، ان کے دماغ سوچ رکھنے والے اور قدرت کی نشانیوں کے عکاس ہوتے ہیں ان افراد کی صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر انہیں سوسائٹی کا اہم ستون بنایا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت بصارت کے محروم لیکن بصیرت افروز نابینا افراد کو باعزت روزگار دے کر یا مناسب وظیفہ مقرر کرکے ان کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانے میں موثر کردار ادا کرے۔
264