کسی سے بات کیجئے! 932

سوال یہ ہے – مسائل سے پرے

زندگی مسلسل مسائل سے اتنی بری طرح دوچار ہے ہر طرف سے اتنی بری خبریں ملتی رہتی ہیں کہ لگتا ہے ہم زندگی میں محض بری خبریں سننے کیلئے آئے ہیں ٹی وی، اخبارات سے اگر چند لمحوں کیلئے نظریں چرا بھی لیں تو اب سوشل میڈیا بھی ہر ٹائم بری خبروں سے بھرا رہتا ہے اتنی بری خبریں سن سن کے آئے دن ہم بھی پتھر کے ہوتے جارہے ہیں ہم پر اکثر بری خبریں اتنا بھی اثر نہیں کرتیں کہ ہم ان پہ افسوس ہی کر سکیں پچھلے کچھ ہفتوں سے مسلسل ایسی خبریں آرہی ہیں جن میں انسانی زندگیاں برباد ہوئیں ، قتل اس لئے نہیں لکھا کہ قتل تو بندہ فوراً ہو جاتا ہے بربادی ان اذیتوں کی داستان ہے جو آجکل انسان دوسرے انسانوں کے ہاتھوں سہہ رہے ہیں ابھی زینب کے ریپ اور قتل کا دکھ پھیلا تو پھر اس کے بعد زیادتی اور قتل کے گیارہ کیسز پھر سے کھل گئے جن کو پولیس نے بنا کسی فیصلے کے دبا دیا تھا۔ قصور والے تین سو بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے کیس کی اذیت پھر سے تازہ ہوگئی۔ جس میں کتنا تکلیف دہ امر ہے کہ اگر ایسا گینگ پکڑا ہی گیا تھا تو انہیں بجائے قرار واقعی سزا دینے کے ہمارے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے اسے ذاتی زمینوں کے جھگڑے کا نام دے کر کیس رفعہ دفعہ کر دیا۔ تین سو بچوں کے ساتھ زیادتی اور پورن ویڈیوز بلیک میلنگز کیا یہ سراسر ریاستی مسئلہ نہیں تھا، کیا بچے ریاست کی ذمہ داری نہیں ہوا کرتے؟ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جیسے ہی بچے رضاعی عمر سے بڑے ہوتے تھے ان کا خرچہ گورنمنٹ اٹھاتی تھی جو بعد میں ایک چھوٹے سے واقعے پر نومولود بچوں کے خرچے تک میں بدل گیا۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہوئے بھی کہیں سے اسلامی تو دور کی بات انسانی بھی نہی رہے تکلیف دہ امر تو یہ ہے کہ سفاکی میں یہ درندے اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ معصوم بچوں کی تکلیف انٹرنیشنل مارکیٹوں میں بیچ کر پیسے کمارہے ہیں۔
ایک نارمل انسان یا نارمل بزنس مین تو اتنی گھناونی حرکت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ایسے لوگوں کو خاص ادویات کے زیر اثر رکھا جاتا ہے پھر ان سے وحشیانہ عمل کرائے جاتے ہیں جن کو دیکھ کے شیطان بھی انہیں دن رات سجدے کرنے کو تیار ہوجائے، معصوم بچے جنہیں سینے سے لگا کے رکھا جاتا ہے جن کی آنکھیں تک کھلکھلاتی ہیں ان پہ تشدد کرتے ہوئے بھی انہیں ایک دفعہ بھی کسی بھی خدا کا خوف تک نہیں آتا۔ اس لئے کوئی خوف نہیں آتا کہ وہ جانتے ہیں ان کے پیچھے بہت طاقتور لوگ ہیں جو انہیں کچھ بھی نہیں ہونے دیں گے۔ ایک پاگل نفسیاتی انسان اتنی صفائی سے زیادتی اور قتل نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس طرح ثبوت چھپا سکتا ہے، زیادتی کرنے والے کو یہ علم تو واشگاف ہوتا ہے نا کہ پولیس نے اگر ڈی این اے ٹیسٹ کیا تو اس کا بچنا نہ ممکن ہے لیکن اس میں سوال یہ ہے کہ اگر پولیس ڈی این اے ٹیسٹ اور اس کی رپورٹ صحیح فراہم کرے بھی تو پھر نا۔پنجاب حکومت نے کس طرح ملزم کے پکڑے جانے پر ڈھنڈورے پیٹے پریس کانفرنس کیں جیسے ان کے ادارے کتنے شفاف طریقے سے چل رہے ہیں اگر اتنے ہی شفاف ہیں تو پچھلے گیارہ بارہ قتل اور زیادتیاں جو بچوں کے ساتھ ہوئیں ان کے قاتل ان کے ملزم کیوں نہ پکڑے گئے جب ڈی این اے کی رپورٹ سے یہ ثابت ہوگیا کہ عمران علی نے نور فاطمہ کے ساتھ زیادتی کی اور قتل کیا تو مدثر کو راتوں رات پکڑ کے پولیس مقابلے میں کیوں مارا گیا؟؟؟یہ سوال ہے بہت بڑا سوال ہمارے محکمہ پولیس کے منہ پر جس کا ان کے پاس قطعاً کوئی جواب نہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ کسی کو جواب دہ ہیں ہی نہیں۔
اور جب ڈاکر شاہد مسعود نے یہ دعویٰ کیا کہ ملزم کے ڈھیروں اکا¶نٹس ہیں تو نہ صرف پنجاب حکومت بلکہ سارا میڈیا اور صحافت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی ڈاکٹر صاحب کی کارکردگی پر شک کیا، یہ نہ سوچا کہ کیا یہ کیس یا اس سے ملتے جلتے کیسز کیا اتنے سیدے سادھے ہیں کہ ایک ملزم کو پکڑ کربس پھانسی چڑھا دیا جائے، آخر ان کارروائیوں کے پیچھے مجرمانہ ذہنوں کو تلاش کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کرتا کیونکہ اس میں ہمارے ملک اور دوسرے ملکوں کے نام نہاد شرفائ، سیاست دان اور ایلیٹ طبقہ انوالو ہوتا ہے، ظاہر سی بات ہے اختیارات والے لوگ اگر ساتھ نہ دیں، اگر قانون لاقانونیت کی پشت پناہی نہ کرے تو قانون کو ہاتھ میں لینا اتنا آسان نہ ہو اور جو ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے یا دھر لیا جاتا ہے، ماردیاجاتا ہے یا پھر اس طرح سے ذلیل کردیا جاتا ہے کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل ہی نہ رہے۔
پورنو گرافی اگر صرف سیکس تک محدود رہتی تو بھی شاید دنیا چلتی رہتی مگر پورنوگرافی، تشدد اور خصوصاً بچوں پہ تشدد ایسا جرم ہے، ظلم ہے کہ اس کے خلاف جتنا لکھا جائے کم ہے، جتنا بولا جائے کم ہے اور جن لوگوں نے اس درندگی کے خلاف احتجاج کیا، پولیس نے انہیں فائرنگ کرکے قتل کردیا، ان کا کوئی نام و نشان نہیں سوال یہ ہے کہ پولیس مجرموں کو پکڑ نہیں پاتی، نہتے شہریوں کو مارتے ہوئے اس کو کوئی مسئلہ پیش نہیں آتا۔
آخر کو ہماری پولیس کو نکیل کون ڈالے گا ان کی وردیوں پہ لگے خون کے دھبے کون صاف کرے گا۔ قانون کا نام تحفظ میں کیسے بدلے گا کیا را¶ انوار جیسے لوگ ہماری پولیس میں یونہی دندناتے پھریں گے جنہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں قتل کئیے ہوئے ہیں۔ پولیس مقابلوں کے نام پر اور پھر ہماری حکومت کی کرم فرمائی کہ ایسے لوگوں کو سپورٹ کرتی ہے۔
ہمارے ہاں مجرموں کو پکڑنے سے زیادہ پولیس والوں کو پکڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس محکمے کو سدھار کی جتنی ضرورت ہے شاید ہی کسی اور کو ہو۔ عام شہریوں کیلئے پولیس غنڈوں، بدمعاشوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن مسئلہ صرف پولیس کا ہی ہوتا تو شاید اتنا مسئلہ نہ ہوتا مگر مسئلہ یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ہر جگہ سدھار کی ضرورت ہے بڑے بڑے محکمے، عہدیداروں سے لیکر عام انسانوں تک سب صرف نام نہاد رہ گئے ہیں اصل کوئی بھی نہیں رہا سب فیک ہیں کوئی بھی اپنی اصل میں نہیں ہے ہر ایک نے ویسے ہی دکھانے کے دانت اور رکھے ہوتے ہیں اوپر سے سونے پہ سہاگہ سوشل میڈیا کی مہربانیوں سے اب صرف وہی نظر اتاہے جو کوئی دکھا دے ہمیں۔ اور سوشل میڈیا کی آڑ سے ہٹ کے کوئی نظر ائے تو وہ جو سوچا ہوتا وہ چھناکے سے ٹوٹ جاتا ہے۔
ہم سب اصل سے بہت تیزی سے ہٹتے جارہے ہیں یہ نقصان بھی ہماراہے جو ہم خود کر رہے ہیں شخصیت کو وہ دکھارہے ہیں جو وہ ہے نہیں۔ دکھاوا اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ حسد، حسرت، رشک اور جیلسی جیسے انسانی محرکات کو جنم دے رہا ہے ہمارے ساتھ بیٹھے بیٹھے لوگ نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہورہے ہیں بہت تیزی سے۔ کچھ الیکٹرانکس کا اثر، کچھ الیکٹرانک میڈیا کا اثر۔ ہم اپنی بنائی ہوئی چھوٹی چھوٹی دنیا¶ں میں اتنے محدود ہوکر رہ گئے ییں کہ ہمیں اردگرد کی دنیا اور اس کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم زندہ انسان ہیں اور ہمیں ظلم کے خلاف، برائی، زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی۔ میں سوچتی ہوں ہمارے سامنے یہ خرافات ہورہی ہیں تو ہمارے بعد آنے والی ہماری اپنی نسلیں کیا کیا کرب اور ظلم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گی، اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی دنیا¶ں تک محدود رہے تو کل آنے والی نسلوں کو ہم اپنے ہاتھوں سے بڑے ہی آرام سے تباہ ہونے کی اجازت دے رہے ہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے خیبرپختونخواہ میں ہونے والی خواجہ سرا کے ساتھ 9 لوگوں کی ساری رات زیادتی کی خبر پڑھی جس بیچارے کی رپورٹ لکھنے کی بجائے پولیس والے ٹھٹھے مارتے رہے سارا دن۔ سوال یہ ہے کیا خواجہ سرا انسان نہیں یا انہیں تکلیف نہیں ہوتی یا پھر ہمارا قانون ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کرسکتا یا پھر بحیثیت انسان کے ان کے کوئی حقوق ہی نہیں، کیا وہ محض تضحیک اور ذلالت برداشت کرنے کیلئے پیدا ہوتے ہیں ان کا کوئی مذہب اور خدا نہیں ہوتا کیا۔ آخر ان کے ساتھ زندگی کے ہر لیول پہ جانے انجانے محض زیادتیاں کیوں؟میں نے اکثر انہیں چوک پہ اداس کھڑے دیکھا ہے ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا انتہائی کمزور مخلوق ہیں یہ۔ کوئی ان کے حق میں آواز نہیں اٹھاتا۔ کیا یہ عام انسانوں کی طرح تعلیم اور نوکری کرکے سکون کی زندگی نہیں گزارسکتے؟ زندگی کا محض ایک پہلو نہ ہونے کے باعث ہم انہیں زندہ ہنے کے قابل ہی نہیں سمجھتے اور کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان کی تدفین بھی لوگوں سے پیسے مانگ کر کی جاتی یے اور ہم یہ دعوی’کرتے ہیں کہ ہم ایک مکمل انسان ہیں حضرت عمر جو کتے کو بھوکا سوتے نہیں دیکھ سکتے تھے یہ سب دیک?تے تو کیا حال ہوتا ہمارے صحابہ کرام اور اولیاءاللہ کا، نبیوں کا؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں