Muhammad Nadeem Columnist and Chief Editor at Times Chicago and Toronto 691

سیاسی ڈیڈ لاک

عمران خان کی حکومت کے پہلے 100 روز خاصی تنقید کی زد میں دکھائی دیتے ہیں۔ ہر شخص یہ سوچتا اور بولتا دکھائی دے رہا ہے کہ جو کچھ کہا گیا تھا کیا پورا ہوا؟ سیاسی جماعتوں نے توپوں کے رُخ پہلے ہی روز سے حکومت کی جانب کردیئے تھے۔ اور طے ہو گیا تھا کہ عمران خان کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے۔ کیوں کہ عمران خان کی کامیابی دو بڑی سیاسی جماعتوں اور ان حواریوں کی سیاسی موت ہوگی۔ موجودہ حکومت، سپریم کورٹ اور فوج کے ٹرائیکا نے ملک کا بہت کچھ بدلنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مگر دیکھا جائے تو جہاں ملک میں پیدا خرابیوں میں ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے وہیں ملک کی عسکری قوتوں کو بھی ان خرابیوں سے بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے موجودہ سیاسی نظام نے جس طرح جمہوریت کی آڑ لے کر لوٹ مار کی ہے۔ اس کی بازگشت صاف سنائی دے رہی ہے۔ مگر عمران خان نے بھی اپنی حکومت بنانے کے بعد سے مفاہمت کے بجائے مخالفت کا راستہ اپنایا۔ اسمبلی فلور ہو یا سیاسی جلسہ سب جگہ سابقہ سیاستدانوں پر کڑی تنقید کی۔ حتیٰ کہ جو کیسز عدالت میں زیر بحث تھے ان پر بھی تجزیہ نگاری سے گریز نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نفرتوں میں اضافہ ہوا اور قومی اسمبلی کوئی بھی بل پاس نہ کر سکی۔ باہمی ورکنگ ریلیشنز شپ پیدا ہی نہ ہو سکا۔ حکومتی ارکان کے خیال میں اسمبلی میں بیٹھے دیگر سیاسی جماعتوں کے چوروں اور اُچکوں سے بات چیت ہو ہی نہیں سکتی۔ البتہ یہ پہلو نظرانداز کیا جاتا رہا کہ یہ پراسس چل پڑا ہے اور اب آہستہ آہستہ چیزیں ٹھیک ہوں گی۔ مگر حکومتی وزراءاور ارکان اسمبلی کی جانب سے بہت جارحانہ انداز اپنایا جانے کے سبب حالات مزید خراب ہو گئے اور فاصلے بڑھ گئے۔ جس کے نتیجے میں مفاہمت کے راستے مسدود ہو گئے اور نتیجتاً سیاسی ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ حکومت قبل از وقت الیکشن کا اعلان کردے۔ تاکہ وہ دوبارہ جیت کر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت بنا سکے۔ مگر اس کے لئے دیگر جماعتوں کے وہ لوگ جو کرپشن میں ملوث ہیں۔ انہیں سیاست سے باہر کرنا ضروری ہوگا۔ تب ہی ممکن ہو سکے گا کہ عمران خان ایک بار پھر کامیاب ہو کر وزیر اعظم بن جائیں۔ شاید کہ پھر پاکستان کو نیا پاکستان بنانے کا خواب پورا کرسکیں۔ موجودہ صورت حال میں تو پاکستان میں بہتری لانا جوئے شیر لانا کے مترادف ہے کیونکہ نہ تو بیوروکریسی تعاون کررہی ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں۔ اندرونی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ حکومت نے بیک وقت کئی محاذ کھول لئے ہیں۔ اور ملک میں نئی اصلاحات لانے کے لئے فضاءسازگار نہیں۔ ملک نہ تو معاشی استحکام حاصل کرسکے گا، نہ ہی سیاسی طور پر۔ اب تک کے حکومتی اقدامات واضح طور پر ثابت کررہے ہیں کہ حکومت بغیر کسی ایجنڈے کے کبھی دائیں، کبھی بائیں حالات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اور یوں کئی ایک غلط اقدامات کے سبب مخالفین کو بھی موقع مل رہا ہے کہ وہ حکومت کو بدنام کریں۔ دیگر صوبوں کو ہٹا کر اگر سندھ حکومت کو دیکھا جائے تو اس نے حکومت کو بدنام کرنے کے لئے کراچی کے عوام پر زندگی تنگ کر رکھی ہے۔ امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کراچی شہر کا میئر بھی اسی لئے تبدیل کرنا چاہتی ہے کہ وہ کئے گئے اقدامات سے غیر مطمئن ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں