جیسی رعایا ویسے حکمران 260

سیلاب کا خطرہ

پنجاب کے مختلف علاقوں میں مون سون کی موسلا دھار بارشوں کے باعث ان دنوں دریائوں میں پانی کی سطح بڑھ گئی ہے ، اور دریائے چناب میں سیلابی صورتحال کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے ۔ محکمہ موسمیات حکام کے مطابق رواں برس مون سون بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی، جبکہ بھارت کی جانب سے دریائوں میں اچانک پانی چھوڑنے سے صورتحال مزید خطرناک ہو سکتی ہے جس سے دریائوں میں طغیانی اور میں سیلاب آ سکتے ہیں۔ طوفانی بارشوں اور قدرتی آفات سے بچائو تو دور جدیدکی ترقی یافتہ دنیا میں بھی ممکن نہیں، چین اور بھارت سمیت خطے کے کئی ممالک طوفانی بارشوں اور سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں اور وہاں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات ہوتے ہیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ بہتر منصوبہ بندی، احساس زمہ داری اور بروقت اقدامات سے نقصان کی شدت کو از حد کم کیا جاسکتا ہے۔
موجودہ دور کے بہت سے ممالک میں بہتر نظم و نسق، مستحکم بنیادی ڈھانچے، انسانی زندگی کے تحفظ کی خاطر کئے جانے والے اعلیٰ پیمانے کے انتظامات کی بدولت بارشوں، سیلاب اور طوفانی برف باری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات پر فی الفور قابو پانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ناگہانی آفات کے موقع پر عوام کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑا جاتا۔
جبکہ مملکت خداداد پاکستان میں حالات اس کے برعکس ہیں یہاں سنگیں مسائل پر کمیٹیاں بنتے بنتے اور ان پر کام شروع ہوتے اتنا عرصہ لگتا ہے کہ پانی سر سے گزر جاتا ہے۔پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لاپرواہی کے نتائج گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت چکی ہے۔ جبکہ اگر پاک فوج، رفاہی اداروں اور علاقائی رضا کاروں کی طرح حکومتی ادارے اور متعلقہ حکام بھی عوام کے تحفظ کی خاطر مکمل سنجیدگی، دلچسپی، خلوص اور احساس زمہ داری سے کام لیں تو یقینا ممکنہ سیلاب کے نقصان سے بچا جاسکتا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر، اور خطے کی آب و ہوا میںتبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ اور اب ایک مرتبہ پھر موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں اور بڑے پیمانے پر سیلاب کے خطرات کو محسوس کیا جا رہا ہے، مزید یہ کہ بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑے جانے پر سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچائو کے لیے حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے؟
2009 ءکے سنگین سیلاب کے بعد ملک بھر کے ذرائع ابلاغ اور قومی حلقوں نے نئے، اور بڑے ڈیموں کی تعمیر کی ضرورت پر زور دیا تھا، بلاشبہ نئے ڈیموں کی تعمیر ہماری معیشت و زراعت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہے ، کیونکہ پانی کے محفوظ ذخائر کی بدولت ہم نہ صرف زر عی خود کفالت حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دو لاکھ میگاواٹ یومیہ مقدار تک کی بجلی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ فرائض شناسی، زمہ داری کا احساس اور عوام کے ساتھ حقیقی وابستگی ہو تو کم وسائل کے باوجود عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو لازمی طور پر اپنی زمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے، ملک کو بحرانوں سے نجات اور ممکنہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حفاظتی اقدامات مکمل کرنا چاہیے، یہ نہ ہو کہ حکمران محض کمیٹیاں بناتے رہیں اور پانی ایک بار پھر سر سے گزر جائے۔ بلاشبہ غربت و مہنگائی کے ستائے عوام پاکستان مزید کسی نئے بحران کو جھیلنے کی سکت نہیں رکھتے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں