سیاسی رسم 494

سی پیک

سی پیک پاکستان کی معیشت کو زوال سے عروج میں بدل دےگا۔ جو پاکستان میں ایک بڑی مثبت ترقی پر انحصار ہے اس میں کوئی شک ہیں۔ سی پیک کی بنیاد پاکستان کے مسائل حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ سی پیک جو کے گوادر سلطنت عمان کا حصہ تھا۔ قیام پاکستان کے گیارہ سال بعد گوادر کو سلطنت عمان سے 1958حکومت پاکستان نے خرایدا۔ گوادر صوبہ بلوچستان کا ایک چھوٹا ساحلی شہر ہے۔ گوادر بندرگاہ کے لیے بہترین ہے اس جگہ کی اہمیت پہلے ہی سامنے آگئی تھی۔ جب 1954 میں امریکی جیالوجیکل سروے نے گوادر کو ڈیپ سی پورٹ لئے کے بہترین مقام قراردیا تھا۔ گوادر کو بندرگاہ کے طور پر ترقی دینے کی باتیں ظاہر ہونے لگی تھی۔ لیکن اس پر عملی کام نہیں ہواتھا۔ 2002ءمیں اس وقت صدرجنرل مشرف نے گوادر بندر گاہ کی تعمیر کا کام شروع کیا اور 2007ءمیں یہ مکمل ہوا۔ اس وقت اس پر 24 کروڑ ڈالر لاگت آئی۔ حکومت پاکستان نے اس بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگارپور کی ایک کمپنی کو بین الاقوامی بولی کے بعد دے دیا۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر چینی سرمایہ کاری کی 2013 کے بعد سامنے آئی، اس کے بعد حکومت پاکستان نے گوادر بندرگاہ کو چلانے کا ٹھیکہ سنگاپور کی کمپنی سے لے کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کر دیا۔ اس دوران نوار شریف کی حکومت نے اعلان کیا کہ چینی حکومت نے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس کے بعد چین پاکستان اقتصادی راہداری کا نام دیا گیا۔ جو خنجراب کے راستے چین کو گوادر کی بندگاہ سے ملانے کا منصوبہ ہے۔
سی پیک دنیا کا سب سے بڑا معاشی وتجارتی منصوبہ ہے۔ یہ ہزاروں کلومیڑ ریلویز، موٹرویز، لاجسٹک سائٹس اور بندرگاہوں کا ایک مربوط نظام ہے۔ یہ بہت سے منصوبوں کا ایک سلسلہ ہے۔ جس کے تحت جنوب مغربی پاکستان سے چین کے شمال مغربی خودمختار علاقے سنکیانگ تک گوادر بند رگاہ ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تیل اور گیس کی کم وقت میں ترسیل ممکن ہو جائے گی۔
اس سے قبل چین مشرق وسطی کی منڈیوں تک اپنا جو سامان بھیجا کرتا تھا وہ بحیرہ جنوبی چین کے طویل راستے سے ہوتے ہوئے بارہ ہزاہ کلومیڑ کی مسافت طے کرکے وہاں پہنچتا تھا۔ پاک چائنہ اکنامک کوریڈور کی بدولت یہ فاصلہ بمشکل تین ہزار کلو میڑ رہ جائے گا۔
یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کی تقدیر بدل دے گا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے سے کئی ممالک کی ترقی منسلک ہے۔ چونکہ چین سے یورپ تک کا سمندری سفر 42 دنوں کا ہے۔ جبکہ اس منصوبہ کی تکمیل سے یہی سفر 10 دنوں کا رہ جائے گا۔ وقت وسائل اور اخراجات کی کمی سے تجارت کو منعفت بخش بنایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے ایک طرف تو روس سمیت کئی وسط ایشیائی ریاستیں اور دوسرے طرف بھارت، ایران اور کئی یورپی ممالک اس کا حصہ بنا چاہتے ہیں۔
سی پیک کی افادیت سب پر عیاں ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے خاص طور پر بھارت اس منصوبے سے نہ خوش ہیں کیونکہ سی پیک کے اس منصوبے کی تکمیل سے کچھ ممالک کی محتاجی ختم ہو جائے گی۔
چونکہ ایشیا اور افریقہ دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہے تو روسی بھی اس خطے میں تجارت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے پاس صرف دو راستے ہیں۔ ایک ایران کی چاہ بہار اور دوسری گوادر پورٹ، مگر چاہ بہار کی گہرائی محض 11 میڑ ہے۔ وسیع تر تجارت مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ اس لیے روس بھی اس منصوبے میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ اگر چہ بھارت اور ایران مل کر چاہ بہار پورٹ بنا رہے ہیں مگر جلد یا بدیر وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کو گوادر کی وجہ سے پاکستان پر انحصار کرنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ایک اندازے کے مطابق روزانہ اسی ہزار ٹرک چین، روس اور سنٹرل ایشیا کے ممالک سے گوادر کی طرف آمدورفت کریں گے۔ پاکستان کو صرف ٹول ٹیکس کی مد میں 20 سے 25 ارب کی بچت ہوگی۔ اکنامک کو ریڈور کے قریب بہت بڑے انرجی زون بنیں گے۔ کئی صنعتی اور تجارت مرکز قائم ہوں گے تو لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار ملے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے پاکستان پوری دنیا کے تیل، گیس اور ایگر ی کلچر صنعتی و معدنی پیدوار اور منڈیوں کے درمیاں پل بن چکا ہے۔
سی پیک منصوبے کی تیزی سے تکمیل کے لیے کام تیزی سے شروع ہے اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیائی ممالک کے تین ارب عوام کو فائدہ ہوگا۔
گوادر پورٹ کے مکمل ہونے پر پاکستان کو تقریبا 10، 9 ارب ڈالر کا سالانہ ریونیو حاصل ہوگا۔ اور 25,20 لاکھ پاکستانیوں کو روزگارملے گا اور عوام کی خوشحالی کا باعث بنے گا۔ چونکہ بھارت کو یہ معلوم ہے کہ سی پیک سے پاکستان کے اہم مسائل باخوبی حال ہو جائیں گے اور پاکستان کچھ ہی دور میں ترقی یافتہ مالک میں شامل ہو جائے گا ان تمام تر چیزوں کے سبب بھارت مختلف طریقوں سے سی پیک کی تیزی سے تکمیل میں رکاوٹ ڈال رہا تھا۔ سی پیک کی تیزی سے تکمیل کے سبب چین اور بھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ اور اطلاعات کے مطابق چین کے پانچ ہزار سے زاہد فوجی بھارت میں گھس گئے ہیں۔ سی پیک کو بھارت سے خطرہ ہے۔ چینی طیارے اور ہیلی کا پٹر ز لداخ پہنچ گئے ہیں۔ چین نے ماونٹ ایورسٹ پر فوجیں اتاردیں ہیں۔ گیلون ندی (لداخ ) سمیت تین مختلف مقامات پر چینی فوج 4-5 کلومیڑ تک LAC سے آگے مورچہ بند ہونا شروع ہوگئی ہے۔ بصرت گلون ندی کے مقام پر چین نے 100 کے قریب ٹینٹ لگا دیے ہیں۔ چین کے پانچ ہزار کے قریب فوج بھارت قبضے کے علاقے لداخ میں داخل ہیں۔ لداخ میں چین نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں، متعدد فوجی گرفتار، اکثر نے بھاگ کر جان بچائی ہے۔ چینی فوج کی نقل وحرکت سے بھارت کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق چینی فوج زیر زمین بنکرز بنانے میں مصروف ہے، لداخ سے ذرائع کے مطابق گھس کر مارنے کی بھٹرکیں مارنے والے بھارت کی آج کل بولتی بند ہے۔ جس کی وجہ سکم اور لداخ کی سرحد پر چینی فوج کی نقل حرکت ہے۔ جس سے بھارتی فوج اور مودی سرکار کے ہوش اڑ گئے ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق چینی افواج ڈابوک شیوک کی اہم شاہراہ سے صرف 225 کلو میڑ دور ہیں۔ بھارت کی موجود صورتحال دیکھ کر لگتا ہے جیسے بھارت کا برا وقت شروع ہو گیا ہے ایک طرف ظلم کشمیری جو مسلسل لاک ڈاﺅن میں ہیں۔ جب وہ ختم ہوگا تو شاید بھارت کے ساتھ کچھ خوفناک ہی عمل سامنے آئے گا۔ دوسری طرف بھارتی مسلمان جو بے سبب تشدد کا شکار ہے۔ ان کی طرف سے اگر منفی رویہ سامنے آگیا تو بھارت اپنے ہی ملک کے حصے دیکھ گا اور پھر چین جس نے بھارت کی حکومت کو اس کی اوقات دیکھا دی ہے۔ ان تمام تر صورتحال کو دیکھ کر لگاتا ہے بھارت کے زوال کا وقت بہت قریب آگیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں