شام: شام میں جاری خانہ جنگی میں ایک مرتبہ پھر شدت آگئی اور مشرقی غوطہ کے علاقے میں روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کی فورسز کی شدید بمباری سے 5 روز کے دوران ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 400 سے زائد ہوگئی۔
عربی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق شامی مبصرین برائے انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ اتوار سے جاری بمباری میں 150 بچوں سمیت 403 افراد ہلاک ہوئے جبکہ تقریباً 2 ہزار 120 افراد زخمی ہیں۔
دوسری جانب گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شام کے لیے اقوام متحدہ کے سفیر اسٹیفن دی مستورا نے اس بات پر زور دیا کہ مشرقی غوطہ میں فوری طور پر جنگ بندی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرقی غوطہ میں انسانی حقوق کی حالت انتہائی خطرناک ہے لہٰذا ہمیں جنگ بندی کی ضرورت ہے تاکہ وہاں وحشیانہ بمباری کو روکا جاسکے اور دمشق میں بھی جاری اندھا دھند شیلنگ بند ہوسکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگ بندی کے ذریعے وہاں انسانی حقوق کی سہولیات فراہم کی جاسکیں گی اور زخمی لوگوں کا مشرقی غوطہ سے باہر علاج کیا جاسکے گا۔
بمباری کے دوران شامیوں کی زندگی
دوسری جانب مشرقی غوطہ میں بے گھر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہی کہیں چھپ سکتے ہیں۔
مشرقی غوطہ کے ایک کار مکینک رفعات الابراہم کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ دنوں میں بمباری کے باعث وہ اپنی ملازمت کھو چکا ہے کیونکہ جہاں وہ کام کرتا تھا وہ جگہ تباہ ہوگئی۔
رفعات الابراہم کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے کچھ اوزار اور چیزیں وہاں سے نکال لی ہیں، جنہیں وہ کاروں کی مرمت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان اوزار کا زیادہ استعمال اپنے تحفظ کے لیے استعمال ہونے والی ایمبولینس کی مرمت کے لیے کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض اوقات اس جگہ بھی بمباری کی جاتی ہے جہاں وہ کام کر رہے ہوتے ہیں جس کے بعد انہیں فوری طور پر عام شہریوں کی مدد کے لیے بھاگنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روزانہ اسی طرح کے خوفناک واقعات رونما ہورہے ہیں جن کو بیان کرنا مشکل ہے، انہوں نے ایک واقع بیان کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ روز ایک بچے کے والدین اپنے بچے کی لاش گود میں رکھے ہوئے رو رہے تھے اور اس بچے کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی تھی اور وہ مدد کے لیے چلا رہے تھے۔
زندہ رہیں یا مرجائیں
اپوزیشن کی زیر مشرقی غوطہ کا علاقہ دارالحکومت دمشق کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے اور یہاں 4 لاکھ افراد آباد ہیں لیکن 2013 کے بعد سے یہاں حکومت نے محاصرہ کررکھا ہے جس کے نتیجے میں عام کھانے کی اشیاء انتہائی مہنگی ہیں اور ایک ڈبل روٹی کے بیگ کی قیمت 5 ڈالر (551 پاکستانی روپے) کے برابر ہے۔
اس کے علاوہ غذائی قلت میں وہاں خطر ناک حد تک اضافہ ہوا ہے اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے رابطے کے لیے قائم دفتر کے مطابق 5 سال تک کی عمر کے 11.9 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ صرف فروری میں ایک امدادی قافلے کو یہاں آنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن جنوری اور دسمبر میں اس طرح کی اجازت نہیں دی گئی۔
مشرقی غوطہ میں جاری لڑائی اور بمباری سے متاثرہ ایک خاتون نسما البتری نے الجزیرہ کو بتایا کہ ہر روز بمباری سے ان کا گھر متاثر ہوتا ہے اور وہ شیلنگ کے دوران ایک کمرے میں ’ایک ساتھ مرنے یا زندہ رہنے‘ کے لیے چھپ جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی بیٹی روز اس بمباری سے ڈر کر ان سے گلے لگ کر پوچھتی ہے کہ ’وہ گھر سے باہر کیوں ہیں کھیل سکتی، وہ اسکول کیوں نہیں جاسکتی؟‘ اور میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔
شہریوں کے خلاف جنگ
شام میں شہری تحفظ کے رکن محمود آدم نے مشرقی غوطہ کے حوالے سے بتایا کہ وہاں کے حالات ’ تباہ کن‘ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ شہریوں کے گھروں، اسکولوں، ہسپتالوں، بازاروں اور شہریوں کے تحفظ کے مقامات کو منصوبہ بندی سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس علاقے میں معاشرہ ایک مقتل گاہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ آیا ہم زندہ رہیں گے یا نہیں کیونکہ لگاتار راکٹ فائر ہوتے ہیں اور اتوار سے مشرقی غوطہ میں کبھی آسمان خالی نہیں دیکھا۔