تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 618

طاقت اور زیادتی

عمران خان نے یوم دفاع اور یوم شہداءکے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے بیان میں فوج اور سول تعلقات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں فوج اور سول حکمراں ایک ہی پیج پر ہیں، یوں انہوں نے گزشتہ پاکستان کی تاریخ میں فوج پر ہونے والے الزامات کا بھی دفاع کیا کہ فوج طاقتور ہونے کی وجہ سے سویلین اداروں پر اپنی بالادستی بڑھاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت سے محروم سیاسی جماعتیں اکثر فوج پر یہ ہی الزام لگاتی ہیں کہ فوج ان کو اقتدار تو دلوا دیتی ہے مگر اختیارات منتقل نہیں کرتی جب کہ آئین کے تحت فوج سول حکومت کی ماتحت ہے۔ اگر کوئی سول حکومت ان کی مرضی کے خلاف ہو تو اس کو اقتدار سے محروم کر کے اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتی اور سول حکومتوں سے زیادتی کی مرتکب ہوتی ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ بنو عباس کے مشہور خلیفہ ہارون رشید کا ولی عہد ایک دن اس کے پاس آیا تو ایسی حالت تھی کہ غصے اور رنج سے اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ خلیفہ نے بیٹے کی حالت دیکھی تو اس سے پوچھا کہ ”جان پدر کیا بات ہے تم پریشان کیوں نظر آرہے ہو“۔ شہزادے نے کہا کہ ”ایک سپاہی کے بیٹے نے مجھے ماں کی گالی دی ہے“۔ بیٹے کی بات سن کر بادشاہ نے درباریوں سے پوچھا کہ ”بتاﺅ مجرم کو کیا سزا دی جائے“۔ ایک نے کہا کہ ”ایسے ناہنجار کو قتل کر دینا چاہئے، دوسرے نے کہا کہ اس کی زبان کٹوا دی جائے، تسیرا بولا کہ اس کے باپ کی تمام جائیداد ضبط کر لی جائے“۔ خلیفہ ہارون رشید نے سب کی بات نہایت توجہ سے سنی، پھر اپنے بیٹے کی طرف دیکھ کر بولا ”بیٹا خدا نے ہمیں اختیار ہے کہ مجرم کو سخت سے سخت سزا دی جائے لیکن ہمارے نزدیک سب سے اچھی بات ہے کہ تم اس کو معاف کردو یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ تم بھی اس کو ماں کی گالی دے دو، مگر معمولی بھی زیادتی تمہاری طرف سے نہیں ہونی چاہئے، خدا ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو زیادتی کرتے ہیں“۔
ہمارے بزرگ شیخ سعدیؒ نے اس روایت میں بیان کیا ہے کہ زیادتی اللہ کو پسند نہیں جب کہ طاقتور کو کمزور کے ساتھ زیادتی کسی صورت میں نہیں کرنی چاہئے، یہ زیادتی چاہے انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر یا کسی ادارے کی دوسرے ادارے کے ساتھ۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہو گا کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کمزوروں پر طاقتوروں نے زیادتی کا آغاز بھی اس ہی وقت سے شروع ہو گیا جب جو بھی کمزور کسی طاقتور کے نرغے میں آیا تو اس کی زیادتی کا شکار ہوا پھر اس ہی طرح ادارے بھی اپنے سے کمزور اداروں پر حاوی ہونا شروع ہو گئے۔ اس طرح زیادتی کا سلسلہ انفرادی طور پر شروع ہو کر اجتماعی طور پر اداروں کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ طاقتور اداروں نے اپنے زور پر کمزور اداروں پر بھی غلبہ حاصل کرنا شروع کردیا۔ اس طرح اداروں کی آپس میں بھی کشمکش جاری ہوگئی۔ پاکستان میں مقننہ انتظامیہ عدلیہ کا قیام جب عمل میں لایا گیا تو ان میں بھی آپس میں غلبہ حاصل کرنے کی لڑائی شروع ہوگئی۔ مقننہ عدلیہ انتظامیہ کے ساتھ چوتھے ادارے کے طور پر ابلاغ عامہ کا نام لیا جاتا ہے۔ ان تمام اداروں کے بارے میں عوام بخوبی واقف ہیں کہ ان اداروں کے اندر کا حال کیا ہے مگر سب سے اپنے اپنے اوپر تک پردے کی دبیز چادر ڈال رکھی ہے۔ جب بھی کسی ادارے کا ٹکراﺅ دوسرے ادارے سے ہو جاتا ہے تو ادارے ایک دوسرے کا پردہ اٹھا کر عوام کو دکھانے کی جرات کرتے ہیں۔ یوں لووں کو ان کے اندر کے حال کا معمولی طور پر اندازہ ہو جاتا ہے۔ ہمارے اداروں میں جو مقننہ ہے وہ ادارے ہیں جو قانون بناتے ہیں ان کو سینیٹ اور اسمبلیوں کا نام دیا جاتا ہے۔ انتظامیہ میں حکومت کے لوگ ہوتے ہیں جن کے ماتحت بیوروکریسی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جب کہ فوج بھی قانون نافذ کرنے والوں میں شامل ہو جائے اس کو بھی انتظامیہ میں شمار کیا جاتا ہے اس ہی طرح عدلیہ میں بنچ اور بار کو شامل کیا جاتا ہے۔چوتھا ادارہ جس کا تعلق ابلاغ عامہ ہے وہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کو بھی شامل کرکے ان اداروں کے ساتھ ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے ایک ادارہ جس کو سول سوسائٹی کا نام دیا گیا ہے وہ وقت آنے پر ان چار اداروں میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنی اہمیت کو اُجاگر کرتا ہے۔
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی جیسے ہی انتظامیہ کا وجود بسایا گیا جس میں نوکرشاہی اور فوج شامل تھی، تو ساتھ ساتھ مقننہ اور عدلیہ کا وجود بھی ہوا۔ قائد اعظم کے انتقال کے بعد ان اداروں میں آپس میں کھینچا تانی شروع ہو گئی۔ اس طرح جو مضبوط یا طاقتور ہوتا وہ اپنے ساتھ دوسرے ادارے کو شامل کرنے کی کوشش کرتا۔ جب مولوی تمیز الدین کی اسمبلی کو برخواست کیا گیا اس وقت کی عدلیہ نے جسٹس منیر کی سربراہی میں ایوب خان کی فوج کا ساتھ دیا۔ اس دور سے فوج کے قدم مضبوط ہونا شروع ہو گئے۔ اس وقت کے جسٹس منیر ایوب خان کا ساتھ دینے کے بجائے مولوی تمیز الدین کا ساتھ دیتے تو شاید مستقبل میں فوج وہ قوت حاصل نہ کر پاتی جیسا کہ بعد میں طاقتور بنی پھر اس ہی عدلیہ نے جس طرح فوجی حکمرانوں کا ساتھ نبھایا جیسا کہ ضیاءدور میں اس نے فوج کے کردار کو خوب پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کئے، ماضی میں جب ایوب خان نے فوج کی مدد سے حکومت یعنی انتظامیہ پر قبضہ کر لیا تو اس موقع پر عدلیہ نے بھی فوجی حکمرانوں کا ساتھ نبھایا۔ ضیاءدور میں اے کے بروہی نے نظریہ ضرورت کا فارمولہ پیش کرکے آئین سے ماورا حکومت کرنے کا گر بھی دیا۔ اس موقع پر ضیاءکی فوجی حکومت نے انتظامیہ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے ساتھ ملا کر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا جس کو بعد میں عدالتی قتل کا نام دیا گیا۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں جب حکومت اور عدلیہ کا ٹکراﺅ شروع ہوا تو اس وقت کے حکمرانوں نے سجاد علی شاہ کی اعلیٰ عدلیہ پر چڑھائی کردی اس طرح حکومت اور عدلیہ میں تصادم بڑے واضح انداز میں دکھائی دیا۔
پرویز مشرف نے اپنے زمانے میں ایک چوتھے ادارے کی بنیاد رکھی جس کو ابلاغ عامہ یا میڈیا کا نام دیا جاتا ہے۔ جب ان کی لڑائی عدلیہ کے سرخیلوں سے ہوئی تو اس موقع پر میڈیا نے بجائے پرویز مشرف کا ساتھ دینے کے، عدلیہ کا ساتھ دیا۔ اس طرح جب بھی ایک ادارے کا دوسرے ادارے سے ٹکراﺅ ہوتا تو وہ باقی اداروں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرتے اس طرح ان اداروں کے ٹکراﺅ میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ یا حکومت کے ساتھ میڈیا بھی ایک فریق کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ اس نوخیز میڈیا نے مشرف کے خلاف عدلیہ کا ساتھ دیا مگر جب اس میڈیا کی لڑائی فوج سے شروع ہوئی، حامد میر پر حملہ کے موقع پر میڈیا نے کھلم کھلا فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیر الاسلام کو تنقید کا نشانہ بنایا، اس موقع پر بھی عدلیہ یا انتظامیہ یعنی حکومت نے میڈیا کا ساتھ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کئے رکھی۔
گزشتہ ستر سال میں فوج نے بھی ایک طاقتور علیحدہ ادارے کی شکل اختیار کرلی ہے اور یہ ادارہ وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتا چلا جارہا ہے۔ ضیاءالحق کے زمانے تک فوج نے اپنے آپ کو سب سے طاقتور ادارے کے طور پر منوالیا۔ اس کے سامنے کسی کو لب کھولنے کی جرات تک نہ تھی جس کے نقصان میں پہلے تو مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکلا پھر موجودہ حصے میں دہشت گردی بھی ضیاءکی اس فوجی حکومت کا مرہون منت ہے۔ فوج کے اس ادارے کا رول ضیاءکے بعد بدلنا شروع ہوا، پہلے جنرل مرزا اسلم بیگ کو بے نظیر حکومت نے تمغہ جمہوریت پیش کیا۔ اس کے بعد نواز شریف دور میں فوج نے اپنے تین سربراہوں کا انجام دیکھ کر اپنے کردار سے تجاوز نہ کرنے کی پالیسی قائم رکھی۔ مگر جب نواز شریف نے بم پر لات مار کر اپنی حکومت خود گنوائی تو اس وقت بھی فوج نے مجبوراً حکومت پر قبضہ کیا۔ جنرل مشرف کا دور بھی اس فوجی دور کی طرح نہیں تھا جیسا کہ ان کے پیش رو حکمرانوں ایوب، یحییٰ اور ضیاءکا دور رہا۔ کہتے ہیںکہ مشرف کے فوجی حکومت میں جمہوریت، موجودہ تمام نام نہاد جمہوری دور سے زیادہ تھی۔ مشرف نے اپنے زمانے میں فوج کے کردار کو مضبوط کرنے کے بجائے میڈیا کے ساتھ ساتھ دوسرے اداروں کو بھی پروان چڑھنے کے مواقع فراہم کئے۔ پرویز مشرف کے بعد زرداری اور نواز شریف حکومت کی کارکردگی عوام سے پوشیدہ نہیں لیکن اشفاق پرویز کیانی کے بعد راحیل شریف کے پاس بہت سے مواقع تھے مگر انہوں نے حکومت کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار بدستور ادا کیا۔ اس لئے زیادتی کا جو سلسلہ اداروں کی صورت جو شروع ہوا وہ وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
امید ہے کہ پاکستان میں انفرادی سطح پر بھی زیادتی کا سلسلہ ختم ہو اور اداروں کی سطح پر بھی زیادتی کا تدارک ہو۔ سب کے ساتھ منصفانہ سلوک ہو۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں