کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ سیلاب کی تباہ کاریاں دراصل اللہ تعالیٰ کی جانب سے عذاب ہے لیکن لوگوں کا یہ خیال سو فیصد باطل ہے۔ عذاب جب آتا ہے کہ تو امیر و غریب نہیں دیکھتا۔ جب ظلم کی انتہا ہو جائے اور چند لوگوں پر خاص و عام سب ظلم کرنے لگیں تو پھر عذاب آتا ہے۔ یہ عذاب نہیں ہے کہ صرف غریبوں پر آئے اور باقی لوگ خرمستیوں میں مصروف ہوں۔ یہ عذاب نہیں یہ ظلم ہے انسانوں کی جانب سے انسانیت پر ظلم ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے بدعنوانیاں، بے ایمانیاں عروج پر ہیں، ان میں امیر و غریب سب شامل ہیں، کوئی جاگیردار ہو، زمیندار ہو، نواب ہو، وڈیرہ یا کوئی عام آدمی، جس کو جہاں موقعہ مل رہا ہے وہ اپنا کام کررہا ہے۔ ان ہی میں ظالم بھی ہیں اور مظلوم بھی، سب ایک کشتی میں سوار ہیں۔ مظلوم ایک بہت ہی زیادہ غریب طبقہ ہے جو ہر طرح کا ظلم سہہ رہا ہے لیکن اس کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اسے خدا سے زیادہ اپنے لیڈر، وڈیرے یا جاگیردار پر بھروسہ ہے۔
یہ عذاب نہیں ہے، اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے یہ ظلم کی انتہا ہے اور عذاب تب آتا ہے جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جائے اور ظلم یہ ہے کہ کئی پل ٹوٹ گئے کیوں کہ ان کو بناتے وقت انسانی جانوں کا نہیں بلکہ یہ خیال رکھا گیا کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ بنانے اور بدعنوانی کے لئے خراب سے خراب میٹیریل استعمال کیا جائے۔ جگہ جگہ سڑکیں ٹوٹ جانا، بڑے بڑے گڑھے بن جانا، جن میں کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں، ظلم اور بدعنوانی کی مثالیں ہیں، اس میں انتظامیہ حکومتی عہدے دار ٹھیکیدار سب شامل ہیں۔ یہ انسانیت پر ظلم ہے اور یہ ظلم مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ ابھی وہ مقام نہیں آیا بلکہ جلد ہی آنے والا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب عذاب کی صورت میں نازل ہو گا۔ عذاب کی شکل ابھی لوگوں نے دیکھنا ہے۔ جب عذاب آتا ہے تو نیک لوگ اس سے متاثر نہیں ہوتے، اللہ قدرتی طور پر ان کے دلوں کو آگاہ کردیتا ہے اور وہ عذاب سے بچ جاتے ہیں۔ محفوظ مقامات پر چلے جاتے ہیں۔ ان حالات میں بھی بے ایمانی اور بدعنوانی کی خبریں آرہی ہیں۔ امداد کی صورت میں اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپیہ آچکا ہے۔ بیرونی ممالک اور مختلف ذرائع سے مسلسل امداد آرہی ہے۔ نقد کے علاوہ خشک غذا، کپڑے، خیمے، اناج اور ضرورت کا تمام سامان آجانے کے باوجود صورت حال یہ ہے کہ ایک مقام پر سڑک کے کنارے ایک عورت کا بچہ پیدا ہوا اس سے زیادہ شرم اور بے غیرتی کی کیا بات ہوگی ان لوگوں کے لئے جو یہ امداد کا سامان دبائے بیٹھے ہیں۔ اگر یہ تمام سامان تقسیم کیا جاتا تو غریبوں کو سڑک کے کنارے بے یارو مددگار پڑے رہنے کی کیا ضرورت ہے۔ جتنا کچھ کام ہوتا نظر آرہا ہے وہ لوگ خود انفرادی طور پر یا فلاحی تنظیموں کے ذریعے کررہے ہیں۔ ان کو کھانا، کپڑے، دوائیاں اور ضرورت کا سامان پہنچایا جا رہا ہے۔ یہ سب لوگ اپنے پاس سے کررہے ہیں اس میں امداد کا کوئی پیسہ شامل نہیں ہے۔ یہ بھی رپورٹس آرہی ہیں کہ بیرون ممالک سے جو آٹا، اناج، خیمے، کپڑے، دوائیاں آرہی ہیں ان کو گوداموں میں چھپایا جارہا ہے اور کئی مقامات پر تو ان کی خرید و فروخت بھی شروع ہو چکی ہے اور اس میں باقاعدہ سندھ حکومت کے عہدے دار شامل ہیں۔ کچھ مقامات پر ان لوگوں سے کہا جارہا ہے کہ ان کو کھانا کپڑے مہیا کئے جائیں گے لیکن ان کو اگر لوگ نقد پیسے دیتے ہیں تو وہ ہم کو دیئے جائیں۔ یہ ہے لوگوں کا کردار اور یہ عذاب نہیں ہے ابھی تو صرف ظلم ہو رہا ہے۔ عذاب امیر و غریب کو نہیں دیکھتا بلکہ جو لوگ بھی ان مظالم میں شامل ہوتے ہیں عذاب سب پر آتا ہے۔
جن غریبوں پر تباہی آئی ہے وہ اگر اپنے لیڈر وڈیرے کے بجائے خدا سے مانگیں تو خدا ان کی مدد ضرور کرے گا۔ جس دن ان تمام لوگوں کو یقین ہو جائے کہ ان کو دینے والا انسان نہیں ان کو سننے والا کوئی انسان نہیں بلکہ صرف اور صرف خدا ہے اس دن ان لوگوں کو انصاف بھی ملے گا اور ظالموں پر عذاب بھی آئے گا۔ مرے ہوئے لوگوں کی پوجا کرنا سب کچھ اس سے یا اس کے رشتے داروں سے مانگنا ان پر ہی بھروسہ کرنا ان کے لئے اپنی جانیں دے دینا، خدا بھی یہ سب دیکھ رہا ہے۔ اس سے کسی نے امید ہی نہیں لگائی ہوئی ہے تو وہ مدد کیوں کرے گا۔ ہاں جس دن یہ زمینی خداﺅں کا اصل روپ لوگ جان جائیں گے، جس دن ان کو یقین ہو جائے گا کہ ان کی تباہی میں ان ہی لوگوں کا ہاتھ ہے تب وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں گے اور خدا سے مانگیں گے تو خدا بھی مدد کرے گا۔
یہاں تو یہ حال ہے کہ ملک میں اتنی تباہی ہونے کے باوجود ایک بڑے شہر کراچی کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ لوٹ مار کا بازار گرم ہے، کیا یہ لٹیرے انسان کہلانے کے لائق ہیں جب یہ خود مصیبت میں ہوں تو کیا خدا ان کی مدد کرے گا۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریاں دوسری طرف کراچی میں قومیتوں کی جنگ چل رہی ہے۔ دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگ جن میں شرفاءکی تعداد کم ہے جرائم پیشہ زیادہ ہیں جو اندرون سندھ اور دوسرے صوبوں سے آکر اس شہر پر اپنی بدمعاشی قائم کرنے اور اپنا سکہ جمانے کے لئے ہر طرح کے جرائم میں ملوث ہیں۔ ان حالات میں موجودہ تباہی کو عذاب کہہ سکتے ہیں، بالکل نہیں، یہ صرف ظلم کی وجہ سے بدعنوانی، بے ایمانی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انتظار کریں یہ تو معمولی سی تباہی ہے، عذاب تو آنا ہے اور ضرور آئے گا ان تمام ظالموں سے نپٹنے کے لئے جنہوں نے ظلم کی انتہا کردی ہے اور ابھی بھی غریبوں کے حق پر ڈاکہ ڈال کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
221