آئندہ مالی سال کا بجٹ جمعہ 11 جون 2021 ءکو پیش کیا جائے گا ۔ پاکستان کے عوام بالخصوص غریب طبقہ آنے والے بجٹ میں ریلیف کا منتظر ہے۔ کیونکہ گزشتہ دو تین سالوں میں پے در پے ہونے والی مہنگائی سے عوام اتنے بد حال اور مفلس ہوچکے ہیں کہ اپنے خاندان کو مرضی کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتے ۔ آٹا، سبزی گھی اور چینی خریدنے کے بعد جیب خالی ہوجاتی ہے اور جیب خالی ہو تو آدمی بیوی بچوں سے ہنس کر بات بھی نہیں کرسکتا۔ خان صاحب فرماتے ہیں کہ بیرونی ممالک سے بہت سے سا پیسہ آ رہا ہے ۔ مگر عوام جانتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے عرب ممالک میں ملازمت کرنے والے ملازمت سے محروم ہوگئے تھے ، سال ڈیڑھ سال بعد انہیں دوبارہ نوکری ملی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ گھر والوں کو بھیج رہے ہیں، تاکہ بے روزگاری کے دور میں جو قرض لیا گیا تھا اسے ادا کرسکیں۔ حکومتی کارکردگی سے عوام کوئی دلچسپی نہیں رکھتی انہیں اس سے بعد بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ خزانے میں کتنا اضافہ ہوا ہے یا کتنی کمی ہوئی ہے عوام کو اپنی معاشی حالت سے دلچسپی ہوتی ہے ۔ وہ خوشحال ہوتے ہیں تو ملک کو بھی خوشحال اور دولت مند سمجھتے ہیں۔ ملک بد حال اور افلاس زدہ ہو تو ملک کی بد حالی اور غربت کا ذمے دار حکمرانوں کو سمجھا جاتا ہے ۔ ملک میں غربت اور افلاس عام ہو تو قوم حکمرانوں کو کرپٹ اور چور سمجھتی ہے ۔ حیرت کی بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزراءملک کی معیشت کو کس حوالے سے مضبوط اور بہتر قرار دے رہے ہیں۔ عوام بھوک سے تنگ آ کر خود کشی کررہے ہیں ماں باپ بچوں کو نہر میں پھینک کر موت کے حوالے کررہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت والدین کی دلی کیفیت کیا ہوگی، ان کے جذبات کیا ہوںگے ۔ مگر خان صاحب اس کیفیت اور جذبات پر غور کرنے اور اس کا سدباب کرنے کے بجائے اپنی حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی بہتری سنا رہے ہیں۔ عوام کی بد حالی اور تنگ دستی کی یہ حالت ہے کہ وہ اب کہیں میاں نواز شریف کے گن گا رہے ہیں اور ان کے اقتدار کے لیے دعائیں مانگ رہے تو کہیں ان کی نظر میں سابق صدر آصف علی زرداری بھی عمران خان سے بہتر ہیں یہ معاملات عمران خان کو سوچنے اور غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
عمران خان کے دور حکومت میں عوام کو حیرتوں کے سوا کچھ نہیں ملا مگر ان کے درباری خان صاحب کو ایوب خان ثابت کرنے کا ہر ممکن جتن کررہے ہیں ۔ موجودہ حکومت سے قبل جتنی بھی حکومتیں پاکستان میں آتی رہیں وہ بے شک لوگوں کی آنکھوں میں ایک سے ایک خواب سجاتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو گزشتہ ساری حکومتوں کے جتنے بھی جھوٹے خواب، وعدے اور دعوے تھے ان سب کو یک جا کرنے اور ان کو کئی سو سے ضرب دینے کے بعد قوم کے سامنے کچھ اس یقین کے ساتھ رکھا جیسے حکومت کی پوری ٹیم جادوگروں کا ایسا گروہ ہو جس کے پاس ایسی چھڑیاں ہوں جن کی معمولی جنبش بھی ایسے کمالات دکھا جائیں گی کہ پاکستانی عوام تو عوام، دنیا اپنی آنکھوں پر اس لیے ہاتھ رکھ کر ڈھانپ لے گی کہ دکھائی دینے والی کرامات و معجزات یقین کر لینے میں مانع ہوں۔ نجانے کن شیطانی طاقتوں نے موجودہ حکمرانوں کے لب و لہجے میں وہ اثر پیدا کر دیا تھا کہ کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں بچا جو دام فریب سے اپنے آپ کو بچا سکا ہو۔ حد یہ ہے کہ تین سال سے ہر دکھائے جانے والے خواب، دعوئوں اور وعدوں کے بالکل بر خلاف ہوتے دیکھنے کے باوجود بھی فریب خوروں کا یہ عالم ہے کہ وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ اپنی آس و امید کا دامن چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اسی امید پر زندہ ہیں کہ حکومت سے کوئی نہ کوئی نہ کوئی ایسا ظہور ضرور ہو کر رہے گا جو زیر کو زبر کرکے چھوڑے گا۔ غرضیکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام کو اچھے دنوں کی نوید سناکر بہت سے مسائل اور مہنگائی کا تحفہ دیا ہے۔ گھر اور روزگار کے وعدے اور دعوے تو ایک طرف غریب کے لیے دو قت کی روٹی سے پیٹ بھرنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔ زرعی ملک میں کہیں اجناس کی قلت ہے توکہیں آٹے گھی چینی کی قیمتیں ہیں کہ کنٹرول میں نہیں آرہیں۔ ان گھمبیر حالات میں غریب پاکستانی عوام مطالبہ کررہے ہیں کہ خدارا ان کی حالت پر رحم کرتے ہوئے ٹیکسوں کا بوجھ کم کرکے آمدہ بجٹ میں انہیں ریلیف دیا جائے، تاکہ غریب محنت کش سکھ کا سانس لے سکیں۔
350